36

گرما گرمی

گرمی کی شدید لہر اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ زیربحث موضوعات ہیں۔ ماہانہ بلوں میں شامل ہونے والے بجلی کے چارجز میں 46.77 فیصد اضافے کے حوالے سے تمام شعبوں کے ماہرین بشمول ماہرین اقتصادیات، سماجیات اور سیاست دانوں کا اتفاق ہے کہ اس سے کم آمدنی والے طبقات (عام آدمی) زیادہ متاثر ہوں گے اور اِس سے معیشت و معاشرت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے پہلے ہی موجودہ 16.91 روپے سے 24.82روپے فی یونٹ کی بنیادی قیمت میں 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی ہے اور حکومت نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ (آئندہ چند روز میں) اِس کے اطلاق کا اعلامیہ (نوٹی فکیشن) جاری کر دے گی۔  بجلی کے بلوں پر عام ٹیکس کی شرح تقریباً بائیس فیصد ہے جس سے فی یونٹ لاگت میں مزید 5.46روپے کا اضافہ ہو جائے گا‘ اس کے نتیجے میں گھریلو صارفین کیلئے یہ شرح تیس روپے اٹھائیس پیسے فی یونٹ ہو جائے گی۔ تیس روپے سے زائد فی یونٹ بجلی کسی بھی طرح حسب حال نہیں اور اِس سے سماجی سرگرمیوں اور اقتصادی ترقی کا توازن بگڑ جائے گا‘ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مزید چند لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ متوسط طبقے کی آمدنی جو پہلے ہی کم ہے اُس کا بڑا حصہ بجلی کے بل کی نذر ہو جائے گا جبکہ نچلے متوسط طبقے کے حجم میں اضافہ ہوگااور سماجی انتشار مزید گہرا ہوگا۔ ممکن ہے کہ بجلی کی قیمت بڑھانے سے حکومت کو بھی کوئی خاص فائدہ نہ ہو کیونکہ ماضی کے تجربات یہی رہے ہیں۔ایک عام دکاندار کے نکتہئ نظر سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے کثیرالجہت منفی اثرات ہوں گے اور اس کا پے در پے دباؤہوگا۔ دکاندار زیادہ بل ادا کریں گے اور اِس کی وجہ سے اشیا ء یا خدمات کے زیادہ نرخ طلب کئے جائیں گے۔ ہوٹل مالکان اب اضافی بلز ادا کریں گے اور اِن بلوں کو کسٹمر چارجز میں شامل کیا جائے گا۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ مہنگائی کے ہمیشہ ہی سے نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں اور ایک ایسی صورت میں جبکہ پہلے ہی سے مہنگائی کا دباؤ موجود ہے اگر عام آدمی کی کم ہوتی قوت خرید مسائل کا باعث بنے گی۔کیا بجلی کی قیمت میں اضافے  سے بچنا ممکن تھا؟۔ اگر یکے بعد دیگرے حکومتیں گزشتہ چند برس میں بجلی کے ترسیلی نظام کی خرابیاں دور کرتیں اور بجلی کی چوری پر قابو پایا جاتا تو فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھانے کی نوبت نہ آتی اور نہ ہی گردشی قرض بڑھتا۔ بجلی کی قیمت سے متعلق پیدا ہونے والا بحران کا پس منظر یہ بھی ہے کہ سالانہ 150 ارب روپے کے مساوی یعنی 10 فیصد بجلی کے بل وصول نہیں ہوتے۔اب اسکی  وجوہات کیا ہیں، یہ جاننا بھی ضروری ہے۔ نیپرا کے پاس بجلی کے نرخوں کو ایڈجسٹ کرنے کا تین جہتی طریقہ کار ہے جس میں ماہانہ‘ سہ ماہی اور سالانہ ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں۔ فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ کرتے وقت نیپرا 9 متغیرات پر غور کرتا ہے جن میں ایندھن کی قیمت‘ ڈالر کی قدر‘ انتظامی اخراجات اور دیکھ بھال اخراجات (مینٹی نینس چارجز) شامل ہوتے ہیں۔ اگر ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو‘ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو ’ایندھن کی لاگت‘ پر ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑتی ہے۔

  آل یاسین