26

کسی سیکٹر میں کسی کو رعایت نہیں دی جارہی ، وزارت توانائی

اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے توانائی عمرایوب کا کہنا ہے کہ کسی سیکٹر میں کسی کو رعایت نہیں دی جارہی ، پاور سیکٹر میں رعایت دینے کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔

 وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان، وفاقی وزیربرائے توانائی عمرایوب اور معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور کابینہ اجلاس کے حوالے سے میڈیا بریفنگ دی۔

معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کابینہ کو کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا اور بتایا کہ دنیا بھر میں سفارتی محاذ پر مودی کے موقف کو شکست ہوئی اور مودی کی اپنی کابینہ نے اپنی ہی حکومت کے اقدام کی مذمت کی۔

فردوس عاشق نے کہا ہے کہ وزیراعظم کشمیر کے سفیر بن کر اس مسئلے کو اجاگر کررہے ہیں، ہم نے بھارتی مظالم کو ہر فورم پر اْٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، جب تک کشمیریوں کا انکا جمہوری آئینی حق نہیں ملتا ہم کھڑے رہیں گے۔

وفاقی وزیرپاورڈو یژن عمر ایوب کا کہنا تھا کہ کسی سیکٹر میں کسی کو بھی رعایت نہیں دی جارہی، پاور سیکٹر میں رعایت دینے کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، وزیراعظم نے شفافیت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ جی آئی ڈی سی کوئی نئی چیز نہیں،2011  کی حکومت نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی وجہ سے جی آئی ڈی سی لگایا اور2017  کی حکومت نے سی این جی سیکٹر پر اس حوالے سے معاہدہ کیا، جی آئی ڈی سی کی مد میں 217 ارب روپے جمع ہوئے تاہم سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر روک دیا کہ جس مقصد کے لیے پیشہ جمع ہورہا ہے اس پر لگ نہیں رہا۔

عمرایوب کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہمارے پاس دو راستے تھے کہ معاملہ کورٹ میں چلتا رہے یا حل نکالا جائے، ہم چاہتے تھے کہ  جی آئی ڈی سی کا مسئلہ حل ہو، پرانے معاملات ختم کرکے ریٹ کم کیے جائیں تاکہ عوام کو ریلیف ملے، سابق وزیرخزانہ اسد عمر نے اس معاملے کا آغاز کیا۔ جی آئی ڈی سی میں 15 ارب روپے جمع ہوتا ہے، ہمیں فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اس کو 45 ارب تک لے جائیں گے۔

معاون خصوصی ندیم بابر کا کہنا تھا کہ حکومت مہنگائی کو ختم کرنا چاہتی ہے، ٹیرف میں جی آئی ڈی سی شامل کرنے والی بجلی کمپنیوں اور جو کمپنیاں کھاد کی قیمت میں جی آئی ڈی سی وصول کررہی ہیں ان کو چھوٹ نہیں ملے گی، یہ ہماری کوتاہی ہے کہ قوم کو تفصیل سے آگاہ نہیں کر سکے۔

ندیم بابر نے کہا کہ آرڈیننس کہتا ہے جو کمپنیاں چھوٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں وہ حکومت کے ساتھ معاہدہ کریں، لیکن یہ کابینہ کے فیصلے میں شامل تھا کہ جب تک آڈٹ نہیں ہوگا معاہدہ نہیں کیا جائے گا، کابینہ کا فیصلہ تھا کہ کمپنیوں کا فارنزک آڈٹ کیا جائے اس کے مطابق فیصلہ ہو، اگلے چند دن میں آرڈیننس میں فارنزک آڈٹ شامل کردیا جائے گا، وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ آرڈیننس میں ترمیم کرکے فارنزک آڈٹ کی شق شامل کی جائے، جی آئی ڈی سی کا بوجھ اگر عوام پر منتقل ہوا ہے تو وہ کمپنیوں سے وصول کیا جائے گا۔

ندیم بابر نے بتایا کہ میں دو آئی پی پیز کے ساتھ منسلک رہا ہوں، میں اورینٹ پاورمیں شیئر ہولڈر ہوں، 2014 میں وہ کمپنی ایل این جی پر شفٹ ہو گئی، میری کمپنی نے جی آئی ڈی سی کی مد میں 28 ملین زائد دیے، سارےلوگ اس آپشن کو استعمال کرتےہیں توہمیں 150 سے160 ارب روپےمل جائیں گے۔