42

جعلی اکاؤنٹس کیس: فریال تالپور، آصف زرداری کے ریمانڈ میں توسیع

جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے جوڈیشل ریمانڈ میں 5 ستمبر تک توسیع کر دی گئی۔

آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔ آصف زرداری اور فریال تالپور کو سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت لایا گیا۔

فریال تالپور کی جانب سے جیل میں اضافی سہولتوں کی درخواست دائر کرائی گئی جس میں جیل میں آئی پوڈ بھی ساتھ رکھنے کی اجازت کی استدعا کی گئی۔ فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ان کی موکلہ کو قرآن کی آیات سننا ہوتی ہیں اس لیے انہیں آئی پوڈ رکھنے کی اجازت دی جائے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئی پوڈ میں وائی فائی یا انٹرنیٹ نہیں ہو گا، فریال تالپور صرف قرآنی آیات ہی سن سکیں گی۔ احتساب عدالت نے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے کہ پہلے جیل حکام سے بات کر کے اجازت لیں۔

فریال تالپور کی جانب سے راہداری ریمانڈ کی درخواست پر نیب نے اپنا جواب بھی عدالت میں جمع کرایا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ فریال تالپور جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، راہداری ریمانڈ کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آج سے سندھ اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں فریال تالپور کو شریک ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی عدالت نے راہداری ریمانڈ دیا تھا، اگر آج راہداری ریمانڈ ہو جائے تو فریال تالپور اجلاس میں شریک ہو سکیں گی۔

صدر پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کو جیل میں اے کلاس دینے کی درخواست کی سماعت کے موقع پر ان کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالتی فیصلہ احتساب عدالت میں پیش کیا۔

اس موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ جیل والے بہت تنگ کرتے ہیں۔ لطیف کھوسہ کا اپنے مؤقف میں کہنا تھا کہ آصف زرداری جب صدر پاکستان بھی نہیں بنے تھے تو انہیں عدالت نے اے کلاس دینے کا حکم دیا تھا، میں کسی اور سے متعلق فیصلہ سامنے نہیں رکھ رہا، اب آصف زرداری سابق صدر ہیں۔ ایڈوکیٹ لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ سابق صدر کو متعدد بیماریاں لاحق ہیں، ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے لہذا آصف زرداری کو جیل میں اے سی کی سہولت دی جائے۔

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ان تمام درخواستوں پر نیب کا موقف بھی سن لیں، جس پر احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ آپ پہلے کہہ چکے کہ یہ درخواستیں نیب سے متعلقہ نہیں ہیں۔ سردار مظفر نے کہا کہ ہم نے صرف ایک درخواست کے بارے میں کہا کہ نیب سے متعلقہ نہیں ہے، دیگر درخواستوں میں ہمارا مؤقف سنیں۔

جج محمد بشیر نے کہا کہ میں نہیں سن رہا، یہ جیل حکام سے متعلقہ معاملہ ہے، آپ اپنا مؤقف تحریری طور پر لکھ کر جمع کرا دیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے احتساب عدالت کے جج سے کہا کہ آپ کس طرح بات کر رہے ہیں، ہم آفیسرز آف دی کورٹ ہیں، ہمارا مؤقف سننا ہو گا۔

احتساب عدالت کے جج نے جواباً کہا میں نہیں سنتا، عدالت میں اونچی آواز سے بات مت کریں، جس پر نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے اپنے سخت رویے پر عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی دقت ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 90 دن کے بعد بھی مرکزی ریفرنس کی کاپیاں ہمیں نہیں دی جا سکیں جس پر احتساب عدالت کے جج نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کاپیاں کیوں فراہم نہیں کی جا سکیں؟

نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ریفرنس کی کاپیاں رجسٹرار کے پاس جمع کرائی جا چکی ہیں۔ جج محمد بشیر نے اس موقع پر کہا کہ ایک درخواست وہ بھی دی گئی تھی کہ نماز نہیں پڑھنے دیتے۔

لطیف کھوسہ نے کہا جی، زرداری صاحب کو عید کی نماز بھی نہیں پڑھنے دی گئی۔ سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ہم اس میں جواب دینا چاہتے ہیں، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ان کو جواب دینے دیں، دیکھتے ہیں نماز سے روکنے کی کیا وجہ بتائی جاتی ہے؟