41

مسئلہ کشمیر پر تیسرے فریق کی ثالثی پر بہت محتاط رہنا ہو گا‘بلاول بھٹو

لاہور۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت کو بھارتی جارحیت کا معاملہ مکمل سنجیدگی سے لینا چاہیے، اقوام متحدہ کے فورم پر مسئلہ کشمیر کو حل ہوناچاہیے، مسئلہ کشمیر پر تیسرے فریق کی ثالثی پر بہت محتاط رہنا ہو گا۔

 مودی حکومت کوبے نقاب کرنے کیلئے موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے ہمیں مسئلہ فلسطین ذہن میں رکھنا چاہیے، مسئلہ کشمیر پر ویسا نہیں ہونا چاہیے جیسا ٹرمپ نے فلسطین میں کیا‘ سینٹ انتخابات میں جنرل فیض حمید کے ملوث ہونے کی میری پاس کوئی خبر نہیں‘ جنرل فیض حمید سے توقع ہے کہ آئی ایس آئی کو سیاست سے الگ رکھیں گے متنازع نہیں بننے دیں گے، اور حکومت کے ہاتھوں اپنے ادارے کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

سینیٹ ووٹنگ میں کھلے عام دھاندلی ہوئی، پی پی پی کے تمام سینیٹرز نے استعفیٰ دے دیئے ہیں لیکن ہم نے اب تک کسی کا استعفیٰ قبول نہیں کیا بلکہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی ہے جب تک تحقیقات کا عمل مکمل نہیں ہوجاتا میں کسی پر شک نہیں کرسکتا‘ پی پی پی سینیٹر کو دھمکیاں بھی دی گئیں جبکہ جہانگیر ترین اور گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی رابطہ کیا تھا‘2007سے سندھ حکومت کوہٹانے کے خواب دیکھ رہے ہیں، سندھ حکومت کوہٹانے کاخواب دیکھنے والے چلے گئے، سندھ حکومت آج بھی ہے‘چیلنج کرتاہوں سندھ حکومت ہٹا کر دکھائیں، نوے دن میں پھر واپس آوں گا، سندھ حکومت تاریخ میں سب سے بڑی اکثریت ہے‘ گھوٹکی میں ضمنی انتخاب ہم نے جیت کردکھایا۔

گھوٹکی کے انتخاب میں مخالفین کو عبرت ناک شکست دی‘ پہلے صادق سنجرانی متفقہ امیدوار تھے آج حاصل بزنجو ہیں، کل کوئی صورتحال تبدیل ہوتی ہے تو کوئی اور متفقہ امیدوار بن سکتا ہے‘ پیپلزپارٹی کا نیب کے بارے میں موقف واضح ہے کہ یہ کالاقانون ہے،نیب قوانین کیخلاف آج بھی کوشش کررہے ہیں، ہم بھی چاہتے ہیں احتساب کا کوئی ادارہ ہو، نیب سیاسی انتقام کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ 

لاہور میں پر یس کانفر نس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ سینٹ میں اپوزیشن کی قرارداد کو ناکام بنانے کیلئے ساری جماعتوں سے سینیٹرز توڑے گئے ہیں۔بہت ضروری ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے پر الفاظ نہ لگائیں۔مسلم لیگ ن پر جب ڈیل کے الزامات لگ رہے تھے میں نے اس وقت بھی اس کی مخالفت کی تھی۔اگر میری پارٹی کا کوئی شخص ن لیگ کیخلاف بات کرتا ہے تو وہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ میں ان کیخلاف بات کررہا ہوں۔

پیپلزپارٹی نے سینیٹرز کے حوالے سے کمیٹی بنادی ہے جو اس موجودہ صورتحال کا جائزہ لے گی اور لوگو ں کے نام سامنے لائے گی۔انہوں نے مزید کہا ہر جماعت کی اپنی اپنی سوچ ہے۔میں کسی پر شک کی وجہ سے پارٹی سے نہیں نکال سکتا۔سینیٹ کا الیکشن آئینی طریقے سے نہیں ہوا۔کٹھ پتلی حکومت اور غیر جمہوری حکومت پر فوکس کرنا چاہیے ناکہ ایک دوسرے پر الزامات لگائے جائیں۔

سینیٹ میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوئی ہے۔پچاس سینیٹرز نے دباؤ اور پیسے کے باوجود اپنی جماعتوں کا ساتھ دیا۔پیپلزپارٹی،ن لیگ،حاصل بزنجو اور مولانا فضل الرحمن نے سینیٹ کے الیکشن سے پہلے تمام صورتحال کا جائزہ لیا تھا کہ جو لوگ ہمیں کہی بھی نہیں چھوڑتے وہ سینیٹ میں کسی کامیاب ہونے دینگے۔میری کوشش ہے کہ میں حکومت کو ہر فورم پر بے نقاب کرو۔اگر وزیر اعظم سوچتے ہیں کہ ان کی سیاسی جیت ہے یہ ان کے غلط فہمی ہے۔صاف اور شفاف الیکشن کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

2007سے کچھ لوگوں کو خوبا آرہے ہیں سندھ حکومت جارہی ہے لیکن آج تک وہ خواب پورا نہیں ہو سکا۔جنرل الیکشن میں جو ہتھ کنڈے استعمال کیے گئے وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔میرے امیدواروں نے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود بھرپور کامیابی حاصل کی۔اگر ان میں ہمت ہے تو سندھ حکومت گراکے دیکھائیں میں نوے دن میں اس سے زیادہ اکثریت سے کامیاب ہوکر دیکھاؤ گا۔اگر یہ لوگ سندھ حکومت گرانا چاہتے ہیں تو ان کو سندھ سے پچاس فیصد امیدوار اپنے ساتھ ملانا پڑے گے۔

یہ لوگ اپنا وقت ضائع کررہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا جب ہم اپوزیشن میں تھے اس وقت سینیٹ کی صورتحال مختلف تھی۔اگر آئندہ سینیٹ کا میک اپ تبدیل ہو جاتا ہے تو اس کے مطابق فیصلہ کرینگے۔اپوزیشن جماعتیں آپس میں لڑائی نہ کریں۔آرٹیکل 6مطلب بہت واضع ہے پیپلزپارٹی نے یہ آئین بنایا ہے یہ آرٹیکل صرف آئین توڑنے والوں پر ہی لاگو ہوتا ہے ان کیخلاف استعمال ہوسکتا ہے جو اداروں کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آرٹیکل 6صرف کسی بیان پر نہیں لگ سکتا۔جنرل فیض سینیٹ الیکشن میں ملوث ہونے کے میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔جنرل فیض حمید پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ماضی میں جنرل فیض کا ادارہ جس طرح دھندلی کے لیے استعمال ہوا،اصغر خان کیس میں جیسے استعمال ہوا وہ سب کے سامنے ہے،مجھے امید ہے جنرل فیض حمید اب سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کے ساتھ بھی رابطے کیے گئے ایک سینیٹرز نے مجھے بتایا کہ مجھ سے جہانگیرترین نے رابطہ کیا دوسرے سینیٹر نے بتایا کہ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ماضی میں عمران خان نے کہا تھا کہ اگر آرمی چیف کی مدت میں توسیع ہوتو ادارے کمزور ہوتے ہیں۔اگر پیپلزپارٹی نے جنرل کیانی کو توسیع دی تو وہ سوات آپریشن کی وجہ سے دی،مجھے امید ہے کہ حکومت آرمی چیف کی توسیع کا معاملات صورتحال کو دیکھ کر ے گی۔

نیب ایک آمر کا بنا ہوا قانون ہے،پیپلزپارٹی اور نواز حکومت نے قانون کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔اس قانون میں بہت سے شقیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔یہ ادارہ سیاسی انتقام کیلئے استعمال ہوتا ہے۔پیپلزپارٹی نے ہمیشہ دہشتگردی کی مذمت کی ہے۔سرحد پر بھارتی جارحیت انتہائی قابل مذمت ہے۔مودی کی انتہا پسندی کو پوری دنیا میں بے نقاب کرنا چاہیے۔ٹرمپ اگر کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو اس معاملے کو صرف اقوام متحد کے فورم پر ہی حل ہونا چاہیے۔