51

بلوچستان میں بنجر زمین زیر کاشت لانے کا فیصلہ

اسلام آباد۔وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 309 ارب روپے کے جامع زرعی پروگرام پر آئندہ دو ہفتوں میں کام شروع ہو جائے گا۔ بلوچستان میں سات لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو زیرکاشت لایا جائے گا۔

 گومل زام اور کچھی کینال کے منصوبے مکمل اور ان میں توسیع کی جائے گی۔ خیبرپختونخوا میں مزید دو لاکھ ایکڑ بنجر اراضی زیرکاشت آ جائے گی۔ سوات، کاغان اور ناران میں ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش اور برآمد کے لئے خطیر فنڈ سے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔ فشریز کے لئے آسان شرائط پر قرضے دیئے جائیں گے۔

 منصوبہ چار سال میں مکمل ہو گا۔ سندھ تاحال اس پروگرام میں شامل نہیں ہوا ہے۔ سندھ حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی ترقی اور زراعت کے لئے سیاست کو الگ رکھ دیں۔ اس پروگرام کے تحت سندھ کے لئے پندرہ سے اٹھارہ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

 ان خیالات کا اظہار وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی صاحبزادہ محبوب سلطان اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے زراعت کے ہمراہ منگل کو پی آئی ڈی اسلام آباد کے میڈیا سینٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

  جہانگیر ترین کی سرکاری ادارے میں پریس کانفرنس کے بارے میں سوال ہوا تھا جس پر وزیر نیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ نے کہا کہ ان کی دعوت پر جہانگیر ترین یہاں پریس کانفرنس کرنے آئے ہیں۔ جہانگیر ترین نے چار سالہ زرعی پروگرام کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کیا اور کہا کہ انہیں فخر ہے انہوں نے پاکستان میں زرعی انقلاب برپا کرنے کے لئے وفاقی کابینہ کو بریفنگ دی۔

 میرے پاس اگرچہ کوئی عہدہ نہیں ہے مگر میں پاکستان کی خدمت کے لئے اس طرح کے کام کرتا رہوں گا۔ حکومت نے چار سالہ زرعی پروگرام میں آبی ذخائر، پختہ کھالوں، لائیو سٹاک، فشریز، ڈیری فارمنگ سمیت دیگر تیرہ منصوبوں کو شامل کیا ہے۔ جہانگیر ترین نے واضح کیا کہ چینی بنانے والے کارخانوں کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ یہ اضافہ چینی پر ٹیکس بڑھانے سے ہوا ہے۔ 

اضافی پیسے کا ایک روپیہ بھی مل مالکان کو نہیں جائے گا بلکہ یہ پیسہ حکومت کو جا رہا ہے۔ اگر میں ملک کی خدمت کر رہا ہوں تو کرنے دیں۔ چاروں صوبوں کو اس منصوبے میں شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ ادوار میں کاشتکاروں کا برا حال تھا۔ ان کو محنت کا مناسب معاوضہ نہیں مل رہا تھا۔ سابقہ حکومت میں کاشتکاروں کے چولہے بند ہو گئے تھے نہ پیداوار بڑھ رہی تھی اور نہ ہی ان پٹس کے حوالے سے ان کی کوئی مدد ہو رہی تھی۔

 ہم نے سابقہ حکومت کی اس پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے پاکستان کی چار اہم فصلوں، گندم، چاول، گنے اور خوردنی بیج کی پیداوار کو ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت گندم کی فی ایکڑ پیداوار تیس من سے چالیس من، گنے کی ساڑھے آٹھ سو من، چاول کی 20 من فی ایکڑ پیداوار بڑھانا چاہتے ہیں اس کے لئے ہم اچھا بیج، کھاد، پانی کی دستیابی کو یقینی بنائیں گے۔ 
 

سولر ٹیوب ویل لگائے جائیں گے۔ 220 ارب روپے اس پروگرام کے تحت پانی کے وسائل پر خرچ ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ ادوار میں ڈیم تو بنائے گئے مگر کمانڈ ایریا ڈویلپ نہیں کیا گیا۔ جہاں جہاں پانی کے ذخائر ڈیمز ہیں وہاں بنجر زمینوں کو زیرآب لانے کا جامع منصوبہ بنایا گیا ہے۔ چار سالوں میں ملک بھر میں 70 ہزار کھالے پکے کئے جائیں گے۔ 

اس سے 9 ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی کی بچت ہو گی جو کہ ایک بہت بڑے ڈیم کے مساوی پانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے ڈیمز میں کمانڈ ایریا کے زیرکاشت آنے پر 20 ہزار ایکڑ پر مزید فصلوں کی پیداوار ہو گی۔ جہاں جہاں پانی ہے وہاں وہاں کھیت لہلائیں گے۔ خیبرپختونخوا میں پانی کے انتظام دستیابی کے حوالے سے گیارہ ہزار سکیمیں بنیں گی۔ 

سندھ حکومت کو کہا ہے کہ اس پروگرام میں شامل ہوں بار بار دعوت دی ہے۔ وزیر فوڈ سکیورٹی نے خود بات کرنے کی پیشکش کی ہے۔ مگر سندھ تاحال اس منصوبے میں شامل نہیں ہوا ہے۔ سندھ کے لئے اس منصوبے میں وفاق نے پندرہ سے اٹھارہ ارب روپے رکھے ہیں اور سندھ کو اپنے حصے کے پنتالیس ارب روپے دینا ہونگے۔ پروگرام میں چھوٹے کاشتکاروں پر فوکس کیا گیا ہے۔

 پاکستان کی خاطر زراعت کی ترقی کی خاطر اس پروگرام کو سیاست سے الگ رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں گیارہ ہزار ایکڑ ساحلی علاقہ ہے مگر دو ڈھائی ملین سے زیادہ کی برآمدات نہیں ہیں۔ ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کے حوالے سے متعلقہ علاقوں میں منصوبے شروع کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں کاشتکار بھینس کے بچھڑے کی افزائش سے گریز کرتا ہے۔ 

اس کے لئے حکومت سبسڈی دے گی اس سے گوشت کی پیداوار میں اضافہ ہو گا اور ان بچھڑوں کو فارمز میں رکھیں گے۔ ان کا گوشت برآمد کیا جا سکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اجناس کی فروخت کی منڈیوں میں مقابلے کی فضا کو فروغ دیں گے اجارہ داری قائم نہیں ہونے دیں گے۔ مڈل مین کے بجائے چھوٹے کاشتکاروں کو فائدہ ہو گا۔ پنجاب میں نئی آڑھت منڈیاں بنیں گی۔

 ان میں لاہور، ڈی جی خان، راولپنڈی اور فیصل آباد کے شہر ہیں جبکہ ملک بھر میں 56 آڑھتی منڈیوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا کیونکہ ان میں بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں ہے اور بارشیں آنے پر ان میں کام ہی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ پروگرام کے حوالے سے عملدرآمد کے سلسلے میں ٹینڈرز کے اجراء کا کام شروع کر دیا ہے دو ہفتوں میں منصوبے پر کام شروع ہو جائے گا۔

 اس موقع پر وزیر زراعت خیبرپختونخوا نے بتایا کہ گومل زام کے منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے۔ دسمبر تک اس پر کام مکمل ہو جائے گا۔ دو لاکھ ایکڑ قابل کاشت ہو جائے گا۔
 

 جہانگیر ترین نے بتایا کہ کچھی کینال پر 80 ارب روپے کی لاگت آئی مگر دس ہزار ایکڑ سے زائد زمینوں کو فائدہ نہ پہنچ سکا۔ حکومت کے جامع منصوبے کے تحت اس پر کام ہو گا اس میں توسیع دی جائے گی اور بلوچستان کی سات لاکھ ایکڑ زمینیں زیر کاشت آ جائیں گی۔ یہ ہے نیا پاکستان، یہ ہے کاشتکار اورکسان کا پاکستان، زرعی انقلاب برپا کر کے رہیں گے۔