71

اصغر خان کے قانونی ورثا کو نوٹس جاری

اسلام آباد ۔سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں ایف آئی اے کی جانب سے فائل بند کرنے کی سفارش کے بعد اصغر خان کے قانونی ورثا کو نوٹس جاری کردیئے ۔

پیرکو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اصغر خان کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے۔دورانِ سماعت سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کے وکیل نے کہا کہ معاملہ 24 سال پرانا ہے، تمام سیاستدانوں نے رقوم لینے سے انکار کیا۔

اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے نے تو کہہ دیاکہ شہادت ہی کوئی نہیں۔ڈی جی ایف آئی اے نے موقف اپنایا کہ تمام بیانات میں گیپس ہیں۔ڈی جی کے موقف پر عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ ایئرمارشل اصغرخان سے متعلق ہے اور کافی عرصہ سرد خانے میں رہا، سپریم کورٹ نے معاملے کو دوبارہ اٹھایا، ایف آئی اے نے سویلین کی حد تک اس کیس کی تفتیش کی اور کافی تفتیش کی جس سے ثابت ہوا کہ پیسہ تقسیم ہوا۔عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے نے فائنل رپورٹ پیش کردی ہے جس میں کہا کہ اس کے پاس کوئی شہادت نہیں اور ایف آئی اے نے معاملہ ختم کرنے کی سفارش کی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ عدالت کو بتائیں اس معاملے پر مزید کیا کیا جائے؟عدالت نے اصغر خان کے قانونی ورثا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔1990 کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل)ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعوی کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔پیسے لینے والوں میں غلام مصطفی کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔

اس معاملے پر ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔سپریم کورٹ نے رواں برس مئی میں وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت اور ایف آئی اے اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں قانون کے مطابق کارروائی کریں۔