واشنگٹن: امریکا نے پاکستان کی فوجی امداد بحال کرنے پر غور شروع کردیا۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے 300 ملین ڈالرز (تقریبا 37 ارب روپے) کے سیکیورٹی فنڈز بحال کرنے پر غور کر رہی ہے۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پاک امریکا تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے کا نیا موقع ملا ہے تاہم دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے اور متعدد مشکل مسائل کا سامنا ہے۔
امریکی حکومت میں اندرونی سوچ بچار جاری ہے کہ پاکستان کی لاکھوں ڈالر سیکیورٹی امداد روکنے کے صدر ٹرمپ کے جارحانہ فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان اب اپنی سرزمین پر دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرنے پر تیار ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان میں نئی حکومت آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے بعض اعلیٰ ترین مشیروں نے ان سے کہا ہے کہ اب پاکستان کی فوجی امداد بحال کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ایک سابق امریکی سفیر برائے پاکستان نے واشنگٹن ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیکیورٹی امداد روکنا ٹرمپ انتظامیہ کا بدترین فیصلہ تھا۔
موجودہ و سابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امداد کی معطلی سے پاکستان امریکا کے اثر و رسوخ سے باہر نکل جائے گا جس کے سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ اعتماد کا فقدان ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں افراد کی قربانیاں دی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی حکام نے عمران خان کی حکومت کے ساتھ سختی و نرمی والی حکمت عملی اختیار کی ہے، پاک امریکا تعلقات میں وزیراعظم عمران خان کلیدی اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں، سیکیورٹی فنڈز کی بحالی نئی حکومت کے ساتھ نئے تعلقات کا حصہ ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان کی امداد روکنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے 2 ستمبر کو پاکستان کے 3 سو ملین ڈالر کے کولیشن سپورٹ فنڈز روک دیے تھے۔ امریکا پاکستان سے گزرنے والی نیٹو سپلائی کے عوض پاکستانی حکومت کو یہ نقد رقم ادا کرتا ہے۔