145

پاکستان میں غیر معیار ی پٹرول دستیاب ہونے کا انکشاف

اسلام آباد۔پاکستان میں دنیا کے گھٹیا ترین معیار کا پٹرول دستیاب ہونے کا انکشاف ہوا ہے،ریفائینریز آکٹین لیول بڑھانے کیلئے خطرناک کیمیکلز استعمال کرتی ہیں جس سے گاڑیوں کا سیاہ دھواں کینسر،ہیپاٹائٹس ،جلدی امراض،دمہ اور سینے کے ان گنت بیماریوں کا باعث بنتا ہے جبکہ وزارت پٹرولیم،اوگرا اورایچ ڈی آئی پی لمبی تان کر سو رہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق غیرمعیاری پٹرول سے چھٹکارا حاصل کرنا پاکستانی عوام کیلئے ایک خواب بن چکا ہے کیونکہ پاکستان میں دنیا کے گھٹیا ترین معیار کا پٹرول دستیاب ہونے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ پاکستان فیول ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہے اور ریفائنریاں آکٹین لیول بڑھانے کیلئے خطرناک کیمیکلز استعمال کرتی ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ماحول دوست سمجھا جانے والا یورو ٹو پٹرول بھی ماحول کیلئے تباہ کن ہے اور گاڑیوں کے انجن بھی تباہ کر رہا ہے۔پاکستان نے جنوری2017ء میں یورو ٹو فارمولا متعارف کروا کر جان چھڑالی تھی لیکن اس کے برعکس دنیا کے دیگر ممالک یورو سکس کوالٹی کا پٹرول استعمال کر رہے ہیں۔پڑوسی ملک بھارت نے اس سلسلے کافی سنجیدہ کوشش کرتے ہوئے ریفائینریز کی اپ گریڈیشن پر550 ارب روپے خرچ کئے ہیں جبکہ 2020 تک مزید300 ارب روپے خرچ کرکے پورے ملک میں یورو سکسک کو الٹی لاگو کرنے کا اعلان کر رکھا ہے،جس سے بھارت ترقی یافتہ ممالک امریکہ،جاپان اور یورپی یونین کے ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے۔

میڈیا رپورٹس میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان ریفائینریز کو اپ گریڈ کرنے کی سکت نہیں رکھتا اور پاکستان کی تمام ریفائینریاں مل کر کل طلب کا صرف30فیصد پٹرول مقامی طور پر تیار کرتی ہیں جبکہ بقیہ 70فیصد درآمد کیلئے سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،ایران اور کویت پر انحصار کیا جاتا ہے۔دستیاب اعداد وشمار اور حقائق کے مطابق یورو ون فارمولہ کے پٹرول میں سلفر کی مقدار 1000پی پی ایم،یوروٹو میں500پی پی ایم،یوروتھری میں350 پی پی ایم،یورو فور میں50 پی پی ایم جبکہ یورو فائیو اور سکس میں سلفر کی مقدار کم ہوکر 10پی پی ایم رہ جاتی ہے جو سیاہ دھواں اور بیماریوں کا باعث نہیں بنتی ہے لیکن افسوسناک بات ہے کہ کئی سال کی چشم پوشی کے بعد اچانک جنوری2017ء میں 2017ء متعارف کروا کر جان چھڑالی لیکن مستقبل کے لائحہ عمل پر کوئی کام نہ کیا جاسکا ہے۔کینسر،دمہ،ہیپاٹائٹس جیسی موذی بیماریاں ہی عوام کا مقدر بنتی رہیں گی۔