265

کئی جماعتوں اور تنظیموں کیخلاف مکمل پابندی پر غورشروع

اسلام آباد۔ حکومت صدارتی آرڈیننس کے متبادل میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 میں ترمیم کا مسودہ تیار کرچکی ہے جس کے تحت وزارت داخلہ کی واچ لسٹ میں شامل انفرادی شخص، تنظیم، مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر مکمل پابندی عائد کی جا سکے گی۔وزارت قانون کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل آ ج پیر کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ مذکورہ ترمیمی بل میں عسکری اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت بھی شامل ہے۔

واضح رہے کہ رواں برس کے آغاز میں صدرِ مملکت ممنون حسین نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی جانب سے قرار دیئے جانے والی کالعدم تنظیمیں اور دہشت گرد افراد ملک میں بھی کالعدم قرار دی گئیں۔مذکورہ ترمیمی بل پر صدارتی دستخط کے بعد حافظ محمد سعید کی جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (ایف آئی ایف) سمیت ال اختر ٹرسٹ اور الرشید ٹرسٹ بھی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل ہو گئی تھیں۔صدراتی آرڈیننس 120 کی مدت میں ختم ہوجاتا ہے لیکن قومی اسمبلی اس کی مدت میں چار ماہ کی توسیع کر سکتی ہے۔واضح رہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھرو نوریٹ نے 19 جنوری کو پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ حافظ سعید کا نام اقوام متحدہ کی تیار کردہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔

ایف اے ٹی ایف دو طرح کی کیٹیگری ‘گرے’ اور ‘بلیک’ رکھتی ہے، کیٹیگری گرے میں شامل ممالک سے مراد یہ ہے کہ مطلوبہ ملک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی معاونت کی روک تھام میں موثر اقدام نہیں اٹھا رہے اگرچہ ایف اے ٹی ایف کے پاس کسی ملک کو اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اختیار نہیں ہے لیکن ان کی سفارشات کی بنیاد پر بیرون ملک ترسیل ناصرف بہت مہنگی ہو جائے گی بلکہ مقامی سطح پر تجارت پر اضافی مالی بوجھ بھی بڑھ جائے گا جس کا خمیازہ صنعت کار اور شہری برداشت کریں گے۔خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو فروری 2012 میں گرے کیٹیگری میں شامل کیا تھا جہاں وہ تین سال تک اسی کیٹیگری میں رہا۔اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ ایک طرف ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا ۔

تو دوسری طرف دہشت گرد اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تفصیلی ڈیٹا بیس تیار کیا جارہا ہے تاکہ منی لانڈرنگ کی روک تھام ہو سکے اور مطلوبہ تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ترمیمی بل پاس ہونے کے بعد تحقیقاتی افسر کی تربیت بھی کی جا سکے گی کہ وہ منی لانڈرنگ کے ذرائع کی تلاش کرسکے۔واضح رہے کہ جماعت الدعوۃ کے چیف حافظ سعید نے صدارتی آرڈیننس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ صدارتی آرڈیننس محض بیرونی عناصر کے دباؤ میں آکر جاری کیا گیا جس کی آزاد ریاست میں کوئی گنجائش نہیں اور مذکورہ آرڈیننس آئین سے ‘متضادم’ ہے۔اس ضمن میں وزیراعظم کے مشیر خاص بیرسٹر ظفراللہ خان نے بتایا کہ اے ٹی اے میں ترمیم کا تعلق وزارت داخلہ سے ہے اور کوئی نیا قانون متعارف نہیں کرایا جا رہا بلکہ صرف اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد کی عملدار کو یقینی بنایا جارہا ہے۔