159

دہشتگردی کے خلاف جنگ پاکستانیوں نے اپنے وسائل سے لڑی، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اپنے وسائل سے لڑی اور اس میں بے پناہ قربانیاں دیں جسے دنیا کو تسلیم کرنا چاہیے۔

اسلام آباد میں بین الاقوامی انسداد دہشت گردی فورم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اپنے وسائل سے لڑی ہے اور دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جس نے اپنے ملک کی 2 لاکھ فوج دہشت گردی کے خلاف استعمال کی۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہم نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو سمیت کئی قیمتی جانیں گنوائیں اور نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی بھی اس سے متاثر ہوئی لیکن ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے اور ہم نے دہشت گردوں کو شکست دی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) سے دہشت گردی کے خلاف جنگ نے نیا رخ اختیار کیا اور ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد رہے اور قومی لائحہ عمل اختیار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ضرب عضب، ردالفساد اور دیگر کئی آپریشن شہروں اور سرحدی علاقوں میں شروع کیے اور ملک میں امن قائم کیا۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر ہے کہ ہم اس جنگ میں کامیاب ہوئے جس میں دنیا کو شکست ہوئی تھی اور ہم نے اپنی سرزمین پر اپنے ہی دشمن کے خلاف اپنے وسائل سے جنگ لڑی اور ہم نے اس میں کامیابی حاصل کی، جسے دنیا کو تسلیم کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھی تھا اور مجھے کوئی ایسا ملک دکھائیں جس نے اس جنگ میں اپنے وسائل سے مکمل جنگ لڑی اور 2 لاکھ فوج سے زائد نے اس میں حصہ لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس، فوج، سیاسی جماعتوں نے اس جنگ میں ساتھ دیا اور ہم نے ملک میں امن قائم کیا اور آج پاکستان بہت محفوظ ملک ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں پہلی مرتبہ 18 ہزار سے زائد علماء نے جہاد کے اصل معنی اور خود کش حملوں کے حوالے سے فتویٰ دیا اور اسے حرام قرار دیا اور یہ ہماری کامیابی ہے جو کسی اور ملک نے حاصل نہیں کی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے کراچی میں بھی امن قائم کیا اور آج شہر قائد کی روشنیاں پھر سے بحال ہوگئی ہیں۔

پڑوسی ملک افغانستان کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جنگ مسائل کا حل نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے اور پاکستان اس عمل میں مصالحت کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کچھ بھی کہے لیکن پاکستان سے زیادہ افغانستان میں امن کا خواہاں کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ وہاں بدامنی ہوگی تو پاکستان براہ راست متاثر ہوگا، جس کی روک تھام کے لیے پہلی مرتبہ پاکستان نے افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا آغاز کیا۔

انہوں نے قندوز جیسے واقعات شدت پسندی اور بنیاد پرستی کا باعث بنتے ہیں اور جنگ افغانستان میں امن نہیں لاسکتی۔

ان کا کہنا تھا لوگ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان میں بدامنی کی وجہ افغانستان میں عدم استحکام ہے۔

کشمیر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 70 سال سے کشمیر کا مسئلہ ہے اور اس کا واحد حل اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں پر عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جو کچھ کشمیر میں ہورہا اس کو تسلیم کریں، وہاں نوجوانوں، عورتوں کے ساتھ کیا ہورہا اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ اتوار کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 17 نوجوانوں کو قتل کردیا گیا، ایسے اقدام انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کو جنم دیتے ہیں۔