88

دکھ اس وقت ہوتا تھا جب لوگ فیملی کے ساتھ دیکھ کر پرچی کی آوازے کرتے تھے، امام

 قومی ٹیم کے بیٹر امام الحق کا کہنا ہے کہ مجھے دکھ اس وقت ہوتا تھا جب لوگ فیملی کے ساتھ ڈنر پر یاکہیں بھی مجھے دیکھ کر پرچی کہتے تھے۔

قومی بیٹر امام الحق نے ایک  ڈیجیٹل انٹرویو کے دوران   اپنے 7 سالہ کرکٹ کیرئیر پر بات کی  جس میں انہوں نے اپنے ساتھ پیش آئے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔

امام الحق نے کہا کہ میں کسی بھی تنقید کا جواب نہیں دیتا لیکن مجھے اس وقت دکھ ہوتا ہے جب لوگ کوئی بھی بات غلط طریقے سے عوام کے آگے بیان کرتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ہم بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں ، اگر ہم پرفارم نہیں کریں گے تو ہم پر تنقید کی جائےگی لیکن یہ تنقید مثبت ہونی چاہیے کیوں کہ مثبت تنقید کرنا ہر انسان کا حق ہے۔

 

اسٹیڈیم میں پرچی کے نعروں پر بات کرتے ہوئے قومی کرکٹر نے کہا کہ اس وقت مجھ پر بہت پریشر تھا، میرے7  سالہ کیرئیر میں مجھ سے کئی مرتبہ دوران انٹرویو  یہ بات پوچھی جاچکی ہے اور میں نے کئی مرتبہ اس پریشر کو چھپانے کی کوشش کی ایسا واضح کیا کہ میں   ذہنی طور پر  بہت مضبوط انسان ہوں لیکن یہ سب بہت مشکل تھا۔

امام الحق کا کہنا تھا کہ گراؤنڈ میں جب  لوگ مجھے پرچی کہتے تھے تو میں سوچتا تھا کہ کیا کرسکتے ہیں ؟سوشل میڈیا کو بند تو کیا نہیں جاسکتا نہ ہی ہم کسی کا منہ بند کرسکتے ہیں، اگرچہ 2017 میں بہت چھوٹا تھا لیکن اب کہہ سکتا ہوں اس کامیابی کے پیچھے میرے والدین کی دعائیں ہیں۔

قومی کرکٹر نے مزید کہا کہ جب  والدین کے ساتھ باہر نکلتا  یا ڈنر کیلئے جاتا تھا تو لڑکے لڑکیاں منہ پر پرچی کہتے تھے جو کہ بہت برا لگتا تھا، میرے والدین نے آج تک میرا میچ گراؤنڈ میں بیٹھ کر نہیں دیکھا ان کا بہت دل کرتا ہے لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں اگر باؤنڈری کے پاس کھڑا ہوں تو میری امی اسٹیڈیم میں بیٹھ کر پرچی کی آواز  نہ سنیں، یہ نعرے میرے لیے نارمل ہیں لیکن والدین کو اچھا نہیں لگے گا۔