21

پنجاب ، کے پی الیکشن کا ازخودنوٹس چار تین سے مسترد ہوا، جسٹس اطہرمن اللہ

چیف جسٹس کو فل بنچ بنانا چاہیے تھا، ازخود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا، جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس امین الدین  کے بعد سپریم کورٹ سے ایک اور آواز  بلند ہوگئی۔  پنجاب ، کے پی کے الیکشن سے متعلق ازخودنوٹس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کا 25 صفحات پر مشتمل  تہلکہ خیز  اختلافی نوٹ سامنے آگیا ہے۔

‏جسٹس اطہر من اللہ نے تحریک انصاف کی درخواست مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ اختلافی نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس کو از خود نوٹس لینے سے پہلے معاملے کی چھان بین کرنی چھاہیے تھی، الیکشن کا معاملہ ہائی کورٹس میں زیر التواء تھا، از خود نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا۔ 

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی فیصلے میں مزید کہا کہ تحریک انصاف کی درخواست پر جس انداز سے کارروائی شروع کی گئی اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی ۔ اس درخواست پر کارروائی شروع کرنے سے پولیٹیکل اسٹیک ہولڈرز کو عدالت پر اعتراض اٹھانے کی دعوت دی گئی۔ اس قسم کے اعتراضات سے عوام کے عدالت پر اعتماد پر اثر پڑتا ہے۔ تحریک انصاف کی درخواست پر کارروائی شروع کرنا قبل ازوقت تھی ۔

تفصیلی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ عدالتی کارروائی کے دوران بھی عدالت میں اعتراضات داخل کرائے گئے۔ سیاسی جماعتوں سے متعلقہ مقدمات میں سوموٹو اختیار استعمال کرنے میں بہت احتیاط برتنی چاہیے۔ عدالت سے رجوع کرنے والی سیاسی جماعت کی نیک نیتی بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ 

اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن میں جانےکے بجائے استعفے دئیے۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے دور رس نتائج مرتب ہوئے۔ پی ٹی آئی کے اسمبلی سے استعفوں کی وجہ سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔ پی ٹی آئی نے پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں صوبوں میں انتخابات نہ کرانے پر متعلقہ ہائی کورٹس سے رجوع کیا گیا۔ ہائیکورٹس میں کیس زیرالتواء تھا اس کے باوجود سوموٹو لیا گیا۔ ہائی کورٹس کی صلاحیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ سپریم کورٹ اگر فل کورٹ تشکیل دیتی تو ا اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا۔ 

جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں لکھا کہ  ہر جج نے آئین کے تحفظ  اور اسے محفوظ بنانے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ 23فروری کو میں نے اپنے نوٹ میں فل کورٹ بنانے کی تجویز دی تھی۔ عوام کے اعتماد کو قائم رکھنے کیلئے فل کورٹ تشکیل دیا جاتا ۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال بہت زیادہ آلودہ ہے۔

تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز نے آئین کے تحفظ کا ایک جیسا ہی حلف اٹھا رکھا ہے۔ آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق نہیں ہوتا اس لئے مناسب ہوتا ہے ہائی کورٹ کو معاملہ سننے دیا جائے۔ عدالتوں کا تلوار اور پیسے پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ ججز اپنے فیصلوں میں غیرجانبداری اور شفافیت سے عزت کماتے ہیں۔ سیاسی نوعیت کے مقدمات میں عدالت کے انتظامی اور عدالتی اقدامات شفافیت پر مبنی ہونے چاہیے۔ کسی سیاسی فریق کو عدالتی عمل کی غیرجانبداری اور شفافیت پر شق نہیں ہونا چاہیے۔