271

جعلی شناختی کارڈز کی تعداد اور تفصیلات ایوان بالا میں پیش 

اسلام آباد۔ حکومت نے جعلی شناختی کارڈز کی تعداد اور تفصیلات سینٹ میں پیش کردیں ۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ارکان کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے بتایاکہ شناختی کارڈ کی تصدیق مہم کے دوران 58301 جعلی اور مشکوک شناختی کارڈ کی نشاندہی ہوئی، وزارت داخلہ پنجاب میں کل جعلی شناختی کارڈ کی تعداد 17438 ہیں ،سندھ میں 13870 ،بلوچستان میں11603 ، خیبر پختونخواہ میں 10200 ، فاٹا میں 3626 ، اسلام آباد میں 816 آزاد کشمیر میں 702 اور گلگت بلتستان میں کل جعلی شناختی کارڈ کی تعداد46 ہے ۔گزشتہ 5 برسوں کے دوران کل 5992 دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ 

گزشتہ 5 برسوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 5244 افراد شہید ہوئے ،قانون نافذکرنے والے اداروں کے 1942 جبکہ 3302 عام شہری شہید ہوئے2013 سے ابتک دہشتگردی کے واقعات میں 14204 افراد زخمی ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 3664 جبکہ 10545 عام شہری زخمی ہوئے۔گزشتہ سات سالوں میں افراد کی مبینہ گمشدگی کی 4608 شکایات موصول ہوئیں۔لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن نے3076 کیسز نمٹائے,1532 کیسز کی تفتیش جاری ہے،لاپتہ ہونے والے 2306 افراد کا سراغ لگایا گیا، چار سو گیارہ کیسز غیرمتعلقہ ہونے پر خارج کئے گئے،سائبر کرائم ایکٹ کے تحت ابھی تک صرف ایک شخص کو 14 ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے وزراء اور اراکین کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بعض ممبران اپنے سوالوں پر موجود نہیں ہوتے یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہے، ہماری وجہ سے اس ایوان کی عزت ہوتی ہے اور بے عزتی بھی ہماری وجہ سے ہوتی ہے۔وزیر کی عدم موجودگی پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ کہیں سائل منقود ہے کہیں مسؤل گم ہے۔

جمعرات کو سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری کی زیر صدارت ہوا۔اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ممبران سوال جمع کراتے ہیں اور وزارتیں سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کرتی ہیں،وزیر سمیت پوری وزارت موجود ہوتی ہے، بعض ممبران اپنے سوالوں پر موجود نہیں ہوتے یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہے، ہماری وجہ سے اس ایوان کی عزت ہوتی ہے اور بے عزتی بھی ہماری وجہ سے ہوتی ہے، اگر ہم اپنے فرائض سے کوتاہی کریں گے تو اس کا اثر ادارے پر پڑتا ہے۔ 

سینیٹر طلحہ محمود نے تحریری طور پر لکھا کہ ان کا سوال بعض مصروفیت کی بناء پر موخر کیا جائے۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی کے سوال کے جواب میں وزیر کی عدم موجودگی پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ کہیں سائل منقود ہے کہیں مسؤل گم ہے۔ سینیٹر چوہدری تنویر نے کہا کہ جو وزراء یہاں آ کر جواب نہیں دے سکتے ان کو گھر استعفیٰ دے کر بیٹھنا چاہیے۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ شیخ رشید نے بھی استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے اور جرات کا مظاہرہ کیا ہے، جس پر چوہدری تنویر نے کہا کہ انہوں نے بھی تردید کر دی ہے۔ 

سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ سینیٹ سیکرٹریٹ کی غلطی ہے کہ جب سیشن ہوتا ہے اجلاس رکھ دیئے جاتے ہیں، ہمیں ایوان میں آنا چاہیے، حکومتی وزراء بھی نہیں آتے۔ وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ فاٹا میں مستقل تعمیر نو کیلئے 15ہزار ملین روپے مختص کئے گئے ہیں، دوکانداروں کیلئے 7ہزار دکانیں بنانے کیلئے معاوضہ دیا جا رہا ہے، جہاں حکومت نے کام کرنا ہے وہاں حکومت کر رہی ہے،سول ادارے اور عسکری ادارے مل کر بحالی کے کام کر رہے ہیں۔ 

وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ مال گاڑیوں کی ویگنز تیار کر رہے ہیں، پاکستان ریلوے 75لوکوموٹوز پاکستان لے کر آیا ہے، دنیا کی کوئی بڑی آئے اور مقابلے کی بڈنگ میں آئے اور یہاں کام کرے،باربرداری کا 4فیصد ریلوے اٹھاتا ہے اور اسے اب 20سے 25فیصد تک لے کر جانا ہے، سال میں 4ہزار مال گالیاں چل رہی ہیں، ساہیوال کول پاور پلانٹ کیلئے پاکستان نے اپنے لوکوموٹوز تیار کئے ہیں، ریلوے نے اپنی آمدنی میں 6گنا اضافہ کیا ہے۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ وزیر داخلہ نے 20منٹ کا کہا تھا مگر ابھی تک نہیں نہیں آئے، سوال کے دوران ہی وزیر داخلہ آ گئے۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی کے سوال ک جواب میں وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ اسلام آباد میں الرجی کا سبب بننے والے درختوں کو مرحلہ وار کاٹا جا رہا ہے، سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ اسلام آباد میں گرین بیلٹ کے 850سے زائد درخت کاٹے گئے اور ٹمبر مافیا نے فاریسٹ گارڈ کو قتل کیا ہے۔

وزیر داخلہ احسن اقبال نے جواب دیا کہ کاٹے گئے درختوں کی اجازت ای پی اے سی سے لی گئی تھی، گارڈ کے قتل پر متعلقہ حکام سے رابطہ کیا جائے گا، اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسزمیں غیر قانونی کسی بھی کام کے حوالے سے کارروائی کی جاتی ہے، وزارت داخلہ کے ذیلی محکموں میں بھرتی کیلئے شفاف طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔