30

قانون سازی نہ ہوئی تو آرمی چیف 6 ماہ بعد ریٹائر تصور ہوں گے، تفصیلی فیصلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان نےآرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا ہے کہ اگر حکومت 6 ماہ کی مدت میں اس معاملے پر پارلیمنٹ سے قانون سازی میں ناکام ہوئی تو موجودہ آرمی چیف ریٹائر تصور ہوں گے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہ میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا 43 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے اور چیف جسٹس پاکستان کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 28 نومبر کو آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے مختصر فیصلہ 28 نومبر کو سنایا تھا جس میں حکومت کو 6 ماہ تک آرمی چیف کی مدت سے متعلق قانونی سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں استفسار کیا ہے ہے کہ ہماری حکومت قانون کی ہے یا افراد کی، ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے، کیس کا بنیادی سوال قانون کی بالادستی کا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دوران سماعت اٹارنی جنرل نےاعتراف کیا کہ 243 کےتحت ریٹائرڈ جنرل بھی آرمی چیف ہوسکتا ہے، اٹارنی جنرل کے اعتراف کے بعد آرمی چیف کےعہدے سے متعلق بہت سے اہم سوالات اٹھتےہیں۔ فیصلے کے مطابق اب معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کے پاس ہے اور ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری، ریٹائرمنٹ اور توسیع کی تاریخ موجود ہے، پہلی بار یہ معاملہ عدالت عظمیٰ کے سامنے آیا جبکہ پہلی سماعت میں درخواست گزار عدالت میں پیش نہیں ہوئے لیکن درخواست واپس لینے کے لیے تحریری استدعا کی جس کو عدالت نے رد کیا جبکہ اگلے روز وہ پیش ہوئے اور زبانی درخواست کی تو انہیں عدالت کا حکم سنا دیا گیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بے ضابطہ نہیں چھوڑیں گے، اٹارنی جنرل نے 6 ماہ میں قانون سازی کی یقین دہانی کروائی ہے، اگر اس مدت میں قانون سازی نہ ہوسکی تو آرمی چیف ریٹائرڈ تصور ہوں گے اور صدر مملکت وزیراعظم کے مشورے پر نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔

اپنے اضافی نوٹ میں چیف جسٹس نے لکھا کہ وہ ساتھی جج سید منصور علی شاہ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں، مخصوص تاریخ کے تناظر میں آرمی چیف کاعہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقتور ہے، ‏آرمی چیف کا عہدہ لامحدود اختیار اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔

اضافی نوٹ میں چیف جسٹس نے کہا کہ ‏غیرمتعین صوابدید خطرناک ہوتی ہے، آرمی چیف کےعہدے میں توسیع، دوبارہ تقرری کی شرائط و ضوابط کا کسی قانون میں ذکر نہ ہونا تعجب کا باعث تھا۔ چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ آئین کے تحت مسلح افواج سے متعلق صدر کے اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔