67

لال مسجد کیس: سپریم کورٹ نے لاپتہ بچوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی

سپریم کورٹ نے لال مسجد کیس کی سماعت کرتے ہوئے انسپیکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کو 4 ہفتوں میں گمشدہ بچوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت عظمیٰ میں لال مسجد کیس کی سماعت جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔دوران سماعت 2 عمر رسیدہ بزرگوں نے عدالت سے فریاد کی کہ ہمیں عمارت اور زمین نہیں چاہیے بلکہ ہمیں اپنے بچے چاہیئں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بچے 2007 میں ہونے والے لال مسجد آپریشن کے بعد سے لا پتہ ہیں اور وہ کسی قید میں ہیں، ہماری ان سے ملاقات کروائی جائے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی جاسوس سے اس کے اہل خانہ کی ملاقات کروائی جاتی ہے لیکن ہمارے بچوں سے ہماری ملاقات نہیں ہوتی۔عدالت نے بزرگوں کی فریاد پر ایکشن لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے چار ہفتوں میں گمشدہ بچوں کے بارے میں عدالت کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس گلزار احمد نے دوران سماعت استفسار کیا کہ لال مسجد کتنے رقبے پر قائم ہوئی اور زمین کس کی ملکیت ہے جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لال مسجد سرکاری زمین پر قائم ہے۔

لال مسجد کے وکیل طارق اسد نے عدالت کو بتایا کہ وقت کے ساتھ لال مسجد کو توسیع دی گئی ہے۔

جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ مسجد خلاف قانون توسیع کرنے کی بھی اسلام میں ممانعت ہے جس پر طارق اسد نے کہا کہ ایسے سوالات کے جواب دینا میں مناسب نہیں سمجھتا۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ’طارق اسد صاحب یہ ہی تو اصل بات ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ لال مسجد میں کتنے افراد مارے گئے یہ الگ بات ہے، لال مسجد کمیشن رپورٹ آ گئی اب ہم کیا کریں، اگر کوئی فوجداری کارروائی بنتی ہے تو متعلقہ فورم پر ہوگی۔لال مسجد کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت کچھ نہیں کر سکتی تو کیس بند کر دے جس پر جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ ’آپ کو معاونت کا کہیں تو کہتے ہیں جواب دینا مناسب نہیں‘۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ دیا جس کے بعد چیف کمشنر اسلام آباد اور قائم مقام چیئرمین کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی عامر علی احمد پیش ہوئے۔