40

نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کا رواں ماہ افتتاح

سلام آباد۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ و تعمیرات کو آگاہ کیا گیا ہے کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم رواں ماہ لانچ کردی جائے گی، نجی شعبے نے پانچ لاکھ70ہزار ایکڑ زمین کی پیش کش کی ہے، ارکان پارلیمنٹ کو ہاؤسنگ اسکیموں میں پلاٹ دینے کی پابندی برقرار ہے، بہارہ کہو ون اسکیم پر تعمیراتی کام بھی اسی ماہ شروع ہوجائیں گے، نیب اور دیگر اداروں نے کلیئرنس دیدی ہے۔ اجلاس کی کارروائی کے دوران بعض ارکان نے نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت دیہی علاقوں میں تین مرلے کے گھروں کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں کہ دیہاتی اس گھر میں اپنے مال مویشی کیسے رکھ سکیں گے۔

اناج کہاں رکھیں گے، بھینسیں اور گائیں کہاں باندھی جائیں گی۔ پھردیہاتوں میں لوگوں کے 10,10 بچے بھی ہوتے ہیں کیا وہ تین مرلے کے گھر میں رہ سکیں گے،ہاؤسنگ اسکیموں کیلئے درخواست گزاروں کی جمع رقوم سے وصول ہونے والے سود کی تفصیلات بھی طلب کرلی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ و تعمیرات کا اجلاس پیر کو کمیٹی چیئرمین محمد نجیب ہارون کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، قائمہ کمیٹی ہاؤسنگ و تعمیرات نے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام سمیت ہاؤسنگ فاؤنڈیشن اور وزارت کے دیگر تمام منصوبوں پر جامع بریفنگ طلب کرلی ہے۔

ابتدائی بریفنگ میں متعلقہ حکام کمیٹی ارکان کومطمئن نہ کرسکے، کمیٹی کے ارکان کو یہ نہ بتایا جاسکا کہ ہاؤسنگ منصوبوں کے حوالے سے قانون سازی سمیت دیگر اقدامات کے حوالے سے کیا تیاری مکمل کی گئی ہے۔ متعلقہ حکام ہاؤسنگ منصوبوں کے تصور تک محدود رہے ، چیئرمین کمیٹی اور ارکان نے کہاکہ ہم اس سے آگاہ ہیں بتائیں سفر کتنا طے کیا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے ہاؤسنگ و تعمیرات کی وزارت اور اس کے ذیلی اداروں میں گزشتہ دورحکومت میں بھرتی ہونے والے تمام ملازمین بشمول ڈومیسائل کی تفصیلات طلب کرلیں۔ 

سابقہ وزیر ہاؤسنگ اقبال محمد علی خان نے کہاکہ ہاؤسنگ منصوبوں میں ہم نے پیشرفت کی بڑی کوشش کی، پٹواریوں کو طلب کرتے رہے ، زمینوں کا ریکارڈ ہی نہیں ملتا تھا، ہر بار نئی بات سامنے آجاتی تھی بڑی کوششیں کی مگر کوئی پیشرفت نہ ہوسکی، اصل کام پیشرفت دکھانا ہے۔ سیکرٹری ہاؤسنگ نے بتایا کہ ملک میں پہلے فیز میں 1989 سے 2013ء ہاؤسنگ منصوبے شروع کیے گئے جن کے تحت 22ہزار 642 پلانٹس اور فلیٹس دئیے گئے، ارکان کے استفسار پر سیکرٹری نے بتایا کہ ارکان پارلیمنٹ ہاؤسنگ اسکیموں میں پلاٹس نہیں لے سکتے۔ البتہ آئینی اداروں کے ملازمین ضرور اہل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ2013ء کے بعد شروع ہونے والے منصوبوں کیلئے پلاننگ کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان اسکیموں کے تحت22ارب روپے جمع ہوئے ، ساڑھے 10کروڑ لینڈ ریکوزیشن کیلئے جاری کیے گئے اسی طرح 5ارب پارک روڈ کی اسکیم کیلئے جاری کیے گئے اس وقت صرف پانچ ارب روپے وزارت کے پاس ہیں۔ حکام نے بتایا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے اجراء کیلئے ٹاسک فورس نے کام مکمل کرلیا ہے ، اتھارٹی بنانے کیلئے قانون درکار ہے ۔

کابینہ نے قانون کے مسودے کی منظوری دیدی ہے بل جلد پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا، آبادی کے پیش نظر پاکستان میں سالانہ 7لاکھ گھر بناناہونگے۔ اسکیم کے تحت چارلاکھ دیہی آبادی، دو لاکھ نیم شہری آبادی، چارلاکھ شہروں میں گھر بنانے کا پروگرام ہے ، شہروں میں 30لاکھ میں آسان اقساط پر گھر دئیے جائیں گے، تاہم اقساط کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے حوالے سے قانون نہیں بن سکا ہے۔

قانون سازی ضروری ہے، اپنا گھر اسکیم بھی اس لئے ناکام ہوگئی تھی کہ کوئی قانون نہیں بن سکا تھا۔ دیگر فریم ورک کیلئے سفارشات اور بلز تیار ہیں، نیا پاکستان اسکیم اسی ماہ لانچ کردیں گے ۔ انہوں نے بتایا کہ نجی شعبے نے 90 ہاؤسنگ اسکیموں کیلئے اسلام آباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور سمیت مختلف شہروں میں پانچ لاکھ 70ہزار ایکڑ زمین کی پیشکش کی ہے یہ منصوبے سرکاری نجی شعبے کی شراکت داری سے شروع کیے جائیں گے۔

ملک میں ایک لاکھ 10ہزار ایکڑ متروکہ وقف املاک کی زمینوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، دیہاتوں میں تین مرلہ اسکیم کے تحت مالکانہ حقوق دئیے جائیں گے ۔ انتہائی معمولی قیمت خرید رکھی گئی ہے۔ سید افتخار الحسن اور دیگر ارکان نے کہاکہ ہم دیہاتوں کی طرز زندگی کو جانتے ہیں سوال یہ ہے کہ تین مرلے کے گھر میں بھینس اور گائے کیسی باندھی جائیں گی، گھاس اور اناج کہاں رکھے جائیں گے اس معاملے کو حکومت ضرور مد نظر رکھے ۔

افتخار الحسن نے کہاکہ پھربعض لوگوں کے دیہاتوں میں 10,10 بچے ہوتے ہیں وہ کہاں رہیں گے کیا یہ اسکیمیں کامیاب رہیں گی۔ قائمہ کمیٹی نے ان تمام سوالات سمیت وزارت سے جامع بریفنگ 21مارچ کو طلب کرلی ہے۔2013ء کے بعد ہاؤسنگ اسکیموں کیلئے درخواست گزاروں کی جمع رقوم سے وصول ہونے والے سود کی تفصیلات بھی طلب کرلی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ ارکان پارلیمنٹ پر ہاؤسنگ منصوبوں میں پلاٹ لینے پرپابندی سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی طرف سے عائد کی گئی تھی ، حالیہ دور حکومت میں بھی اس پابندی کو برقرار رکھا گیا ہے۔