136

اٹھارویں ترمیم کی حفاظت کیلئے بلاول کی لانگ مارچ کی دھمکی

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کراچی پریس کلب کا دورہ کیا جہاں انہوں نے نئی گورننگ باڈی  اور سینئر صحافیوں سے ملاقات  کی،  اس موقع پر بلاول بھٹو کو پریس کلب کی اعزازی رکنیت بھی دی گئی۔

پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ کراچی پریس کلب سمیت ملک بھر کے پریس کلبز نے ہمیشہ سے جمہوریت کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور جمہوریت کی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کیا ہے، تمام پریس کلبوں کا دورہ کروں گا اورکوشش کروں گا کہ  ملک بھر کے پریس کلبوں کو سیاست کا مرکز بناؤں، ہم  نے آزادی اظہار رائے کے لیے جدوجہد کرنی ہے  اور آزادی اظہار رائے پر ہونے والے حملوں کا دفاع کرنا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ  پی پی پی نے 18ہویں ترمیم کی صورت میں 1973 کا آئین بحال کیا، حکومت اور دیگر قوتوں کی طرف سے جمہوریت، انسانی حقوق اور 18ہویں ترمیم پر حملے ہورہے ہیں، پی پی پی یہ حملے برداشت نہیں کرے گی اور بھرپور سیاسی جدوجہد کے لیے تیار ہے، 18ہویں ترمیم کو کمزور کرنے والےعدالتی فیصلوں کے خلاف نظر ثانی کے لیے جائیں گے، اگر اس کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک کے کونے کونے میں جاؤں گا اور لانگ مارچ کے لیے تیار ہوں لیکن 18ہویں ترمیم اور آئین پر آنچ نہیں آنے دوں گا۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عدالتوں کی طرف سے عجیب عجیب فیصلے آرہے ہیں، تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مختصر اور تفصیلی فیصلوں میں اتنا اختلاف ہو، عدالتوں کے متضاد فیصلوں پر عوام سوال اٹھائیں گے، عدالتیں اس کی کیا منطقی دلیل دیں گی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پچھلے ایک سال میں پارلیمنٹ نے اپنا اختیار بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے، حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ کا کھویا ہوا اختیار واپس لینا ہے، قومی اسمبلی نے کیسے برداشت کرلیا کہ کوئی دوسرا ادارہ عوام پر ٹیکس لگائے، سپریم کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کو عوام پر ٹیکس نافذ کرنے کا کوئی اختیار نہیں، یہاں تک سینیٹ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں، یہ صرف قومی اسمبلی کا اختیار ہے، ان کے پاس یہ اختیار کیسے گیا اس پر قومی اسمبلی میں بحث ہونی چاہیے، ایگزیٹیو اختیارات وزیراعظم کو حاصل ہیں جنہیں کوئی دوسرا ادارہ استعمال نہیں کرسکتا، کب تک پارلیمنٹ خاموش بیٹھ کر اس تماشے کو دیکھے گی۔

چیرمین پی پی پی نے کہا کہ اگر باقی اداروں کا ایکٹوازم (فعالیت) ہوسکتی ہے تو پارلیمانی ایکٹوازم کیوں نہیں ہوسکتی، باقی ادارے خود کو طاقتور بناسکتے ہیں تو پارلیمنٹ خود کو طاقتور کیوں نہیں بناسکتی، اگر حکومت پارلیمنٹ کو سنجیدہ لے اور عوام کے مسائل حل کرے تو کامیاب بھی ہوسکتی ہے، ایک بنیادی فلسفہ ہونا چاہیے کہ پہلے انسان بنو پھر سیاست دان، حکمران یا جج بنو، انسداد تجاوزات کے خلاف عدالتوں اور حکومت کے فیصلے انسانی بنیادوں پر نہیں ہیں، میئر کراچی کو غریب لوگوں کی دکانیں اور گھر گراتے دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہوں۔