73

فاٹا اصلاحات سے انضمام تک کا سفر

پشاور۔فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ماضی میں بھی کوششیں ہوئی تھیں مگر بوجوہ کامیابی سے دوچار نہ ہوسکیں 1976میں جنرل ریٹائرڈ نصیراللہ بابرکی رپورٹ سامنے آئی تاہم وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے1977 کے عام انتخابات سے قبل قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کی تجویز پر فوجی بغاوت کے بعد عمل نہ ہوسکا ۔

1997ء کے انتخابات میں پہلی با ر فاٹامیں بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے بعدازا ں 2006ء صاحبزادہ امتیاز احمد رپورٹ سامنے آئی 2008ء میں : جسٹس (ر) میاں محمد اجمل رپورٹ میں برطانوی راج سے نافذ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن میں ترامیم تجویز کی گئیں 2011:میں صدر آصف علی زرداری نے سیاسی جماعتوں کو سرگرمیوں کی اجازت دی اور لوکل باڈیز ریگولیشن بھی تیار کیا گیا نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں نومبر 2015ء میں کمیٹی تشکیل دی گئی۔

کمیٹی نے وزیر اعظم کو 23 اگست 2016ء کو اپنی سفارشات پیش کر دی تھیں‘ 9 ستمبر 2016 کو کمیٹی کی رپورٹ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی جبکہ 27 ستمبر 2016 کو سینیٹ میں پیش کی‘ بھرپور دباؤ کے بعدپھرد ومارچ 2017ء کو کابینہ نے بالآخر فاٹا اصلاحات کی منظوری دے دی تھی اور قریباً دس ماہ بعد بارہ جنوری 2018کو مزید پیشر فت کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کی توسیع کا فاٹا کاترمیمی بل بھی منظور کرلیاجس کے بعدیہ بل ایوان بالا بھجوادیاگیا بدقسمتی سے وہاں بھی معاملہ تاخیر کاشکارہوگیا اور پھر تین ماہ کی غیر ضروری تاخیر کے بعدسینٹ نے بارہ اپریل 2018کو بل کی منظوری دے دی جس پر صدرمملکت نے پھرپانچ دن بعد یعنی اٹھارہ اپریل کو دستخط کردیئے جس کے بعداب 24مئی کو فاٹاانضمام بل کی منظوری د ے دی گئی