وطن عزیز کیلئے پہلی آبی پالیسی اور واٹر چارٹر کی متفقہ منظوری قابل اطمینان ہے یہ اتفاق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں ہوا اجلاس میں قومی واٹر کونسل کے قیام کیساتھ بجلی کے منافع کی تقسیم کا معاملہ صوبوں کی مشاورت سے حل کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا عین اسی روز وزیر اعظم ہی کی زیرصدارت قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے ترقیاتی سکیموں کی تقسیم پر تین صوبوں نے مشترکہ واک آؤٹ کیا خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا چھوٹے صوبوں کے تینوں وزرائے اعلیٰ کا کہنا ہے کہ ترقیاتی پروگرام پی ایس ڈی پی میں خیبرپختونخوا‘سندھ اور بلوچستان کا خیال نہیں رکھا گیا جبکہ پنجاب کیلئے سکیمیں ڈالی گئیں ان کا کہنا ہے کہ ہمارے واک آؤٹ کیساتھ اجلاس کا کورم ٹوٹ گیا اسکے بعد اگر اجلاس میں کوئی بھی معاملہ منظور ہوتا ہے تو وہ غیر آئینی ہوگا تینوں صوبے مجموعی طورپر وفاقی حکومت کے پی ایس ڈی پی کو مسترد کرنے کیساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مطالبات پورے نہ ہوئے تو نہ صرف یہ کہ وہ بجٹ تسلیم نہیں کرینگے بلکہ ضمنی بجٹ پیش ہوگا۔
جہاں تک واٹر پالیسی کا تعلق ہے اسکی منظوری قابل اطمینان سہی تاہم آبی ذخائر سے متعلق بڑے فیصلوں کا انتظار موجودہ حکومتوں کے دور میں بھی صرف انتظار ہی رہا سیاسی قیادت نے نہ تو مذاکرات کا اہتمام کیا نہ ہی باہمی اتفاق سے نئے بڑے آبی ذخائر کے قیام کو یقینی بنایا پن بجلی منافع کا مسئلہ زیر غور ضرور آیا تاہم اس پر بات ابھی تک مشاورت پر ہی رکی ہوئی ہے جس کا کوئی موثر اور حتمی ٹائم فریم نہیں دیا جارہا ایک ایسے وقت میں جب جمہوریت پوری طرح کام کر رہی ہو ایکنک جیسے پلیٹ فارم پر تین صوبوں کا مطمئن نہ ہونا سیاسی عدم برداشت کو ظاہر کرتا ہے قوم اپنی قیادت سے اس کی مدت انتخاب کے اختتام پر مرکز اور صوبوں میں اہم اور دور رس نتائج کے حامل فیصلوں کیساتھ ریلیف کیلئے اقدامات کی توقع رکھے ہوئے ہے جس کیلئے سینئر قیادت کو مذاکرات اور بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا ہوگا ۔
کارکردگی شرط ہے
لیڈی ریڈنگ ہسپتال سمیت سات تدریسی طبی مراکز(ایم ٹی آئیز) کے بورڈ آف گورنرز کے ممبران کی مدت5مئی کو مکمل ہو رہی ہے ہمارے رپورٹر کی فائل کردہ سٹوری کے مطابق نئے ممبران کے تقرر کیلئے اقدامات کا آغاز نہیں کیا گیا حکومت نئے ارکان کا انتخاب کرتی ہے تو ان کیلئے شرط اول شفاف میرٹ ہے اور اگر اگلی مدت کیلئے موجودہ ارکان کی خدمات کو توسیع دینا ہے تو شرط اول کارکردگی ہونی چاہئے یہ کارکردگی کتابوں میں کافی نہیں ہمارے ہاں سرکاری ادارے صرف اس وجہ سے ثمر آور نتائج نہیں دے پائے کہ انکی پرفارمنس کو فائل کے اندر سب اچھا لکھ کر پیش کردیا جاتا ہے آج بھی ذمہ دار حکام کو دیکھنا ہوگا کہ کیا ہسپتالوں میں ڈیلیور ہو رہا ہے یا نہیں دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ حکومت کے اتنے اچھے اور مثبت اقدامات کے باوجود چیف جسٹس آف پاکستان کی آمد پر ہسپتالوں کو ہدایت نامے کیوں جاری ہوئے ہیلتھ سیکٹر میں موجودہ حکومت کی اصلاحات کو ہر حوالے سے یادگار اور قابل تعریف قرار دیا جا سکتا ہے تاہم اس کا خوشگوار احساس برسرزمین ثمرآور نتائج سے جڑا ہے جنہیں یقینی بنانا ہوگا تاکہ آئندہ کبھی کوئی ہدایت نامہ نہ جاری کرنا پڑے۔