1237

غیر یقینی کا خاتمہ ضروری ہے

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک بارپھر ملک میں جوڈیشل مارشل لاء کو بعض ذہنوں کی اختراع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی مارشل لاء نہیں لگ رہا ‘ لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ اگر شب خون مارا گیا تو سپریم کورٹ کے 17جج نہیں رہیں گے‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عوام کو بنیادی حقوق فراہم نہیں ہوئے اور یہ اب میری ڈیوٹی ہے کہ حقوق دوں ‘ دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کہتے ہیں کہ یہ وقت دشمنوں سے خبر دار رہنے کا ہے‘ آئی ایس پی آر کے سربراہ کہتے ہیں کہ دشمن قوتیں غیر یقینی صورتحال پیدا کررہی ہیں‘ وہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کو اہم قرار دیتے ہیں جبکہ اقتصادی بحالی کو ترجیح گردانتے ہیں‘ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وطن عزیز میں غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ناگزیر ہے‘ سیاسی مخالفت جمہوری عمل کا حصہ ہے‘ اس کو ایک دائرے اور ضابطہ اخلاق میں رکھنا سینئر سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے‘ اس وقت اصل تقاضا ڈیلیور کرنے کا ہے‘ پاک فوج کے ترجمان اقتصادی بحالی کو ترجیح قرار دیتے ہیں۔

اس حقیقت سے صرف نظر ممکن ہی نہیں کہ کسی بھی ریاست کا انتظام وانصرام اسکی تعمیر وترقی‘ دفاع اور عوامی خوشحالی اقتصادی شعبے سے جڑی ہے‘ ہماری اکانومی جتنی مستحکم ہوگی اتنا ہی ملک ترقی کریگا‘ اس وقت حکومت کے تمام دعوؤں‘ وعدوں اور بیانات کے برعکس ملک بیرونی قرضوں تلے دب چکا ہے‘ تجارتی خسارہ خوش کن اعلانات کا منہ چڑا رہا ہے‘ توانائی بحران کے خاتمے سے متعلق آئے روز کے بیانات موسم گرما کے آغاز پر ہی محض بیانات ہی ثابت ہو رہے ہیں‘ 2018ء میں بجلی بحران کے خاتمے کی نوید سننے والے اپریل ہی میں لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں چیخ رہے ہیں‘ خوش کن اقتصادی اعشاریے پیش کرنے والے فنانشل منیجرز گرانی کے بڑھتے گراف پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں‘ بنیادی شہری سہولیات کافقدان عام ہے اور عدالت عظمیٰ مختلف شعبوں میں اصلاح احوال کیلئے احکامات دے رہی ہے‘ پینے کا صاف پانی ہو یا مارکیٹ میں مضر صحت اشیاء کی فروخت‘ ذمہ دار ادارے خاموش ہی دکھائی دیتے ہیں‘ اب جبکہ مرکز اور صوبوں میں قائم حکومتیں چند ہفتوں کی مہمان رہ گئی ہیں‘ انہیں زیادہ فوکس غیر یقینی اور تناؤ کی حامل صورتحال کے خاتمے اور عوام کی ریلیف یقینی بنانے پر کرنا ہوگا‘فاٹا اصلاحات جیسے ادھورے کاموں کی تکمیل پر توجہ مبذول کرنا ہوگی۔

فلٹریشن پلانٹس؟

صوبائی دارالحکومت میں شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کیلئے کچھ عرصہ قبل جگہ جگہ فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے ‘ جن میں سے بعض نان آپریشنل پڑے ہیں‘ یہ صورتحال قومی دولت کے ضیاع کی عکاس ہے‘ نئے پلانٹس لگانا تو ایک طرف ‘ لگے ہوئے پلانٹ کی دیکھ بھال میں غفلت کا نوٹس لینا ضروری ہے‘ اب جبکہ موسم گرما شرورع ہو رہا ہے‘ پشاور میں لگے تمام فلٹریشن پلانٹس کی مرمت کرکے انہیں فوراً آپریشنل کرنے کا حکم دینا ناگزیر ہے‘ اس کیساتھ ہی شہر کے گلی محلوں میں بوسیدہ اور زنگ آلود پائپ تبدیل کرکے فوری طور پر صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی‘ ٹیوب ویلوں کی مرمت بروقت کرنے کا انتظام دینا ہوگا تاکہ گرمی میں کوئی علاقہ مشین کی خرابی پر پانی سے محروم نہ رہے‘ اس مقصد کیلئے یونین کونسل لیول پر فوری انتظام کرنا ہوگا۔