313

اقتصادی زونز میں ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی سفارش

اسلام آباد۔پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سیکرٹری تجارت یونس دھاگہ نے واضح کیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ٹاسک فورس کے پاکستان سے متعلق کسی بھی ممکنہ فیصلے سے جی ایس پی پلس کی سہولت متاثر نہیں ہو گی۔ یورپی یونین نے پاکستانی اقدامات کی تعریف کی ہے تاہم محنت کشوں اور مزدوروں کے حالات کار کو مزید بہتر بنانے کے بارے میں کہا گیا ہے۔ شوگرملز موجودہ پالیسی پر عملدرآمد نہیں کر رہی جس کی وجہ سے کاشتکاروں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ یہ ملز چینی برآمد کرنے کے لئے 180 روپے فی من کی قیمت پر سبسڈی وصول کر رہی ہیں جبکہ کاشتکاروں سے 130 روپے میں گنا خریدا جا رہا ہے۔ پاکستان کی شوگر پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ یہ پالیسی گنے کی کاشت میں اضافے کے لئے بنی تھی جبکہ اب پاکستان میں سرپلس چینی کی پیداوار ہے۔ اجلاس کی کارروائی کے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پاکستان پوسٹ سے قومی ادارے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا دو ہفتوں میں ماڈل مانگ لیا۔ اس ماڈل پر حتمی رائے آنے تک پاکستان پوسٹ کو منی آرڈر کے بارے میں نجی سرکاری شراکت داری کے منصوبے پر عملدرآمد سے روک دیا ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اقتصادی زونز میں ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کی سفارش بھی کر دی ہے اور واضح کیا ہے کہ ان زونز سے باہر مینوفیکچررز اپنے مال کے حوالے سے مسابقت سے پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ زونز کی پیداواری لاگت کم ہوتی ہے باہر مینوفیکچررز کو ٹیکس چھوٹ حاصل نہیں ہوتی۔ مشینری پر ہر قسم کی چھوٹ دی جا سکتی ہے۔ منگل کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید خورشید شاہ کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ پاکستان پوسٹ کے نجی سرکاری شراکت داری کے منصوبے پر بریفنگ دی گئی اجلاس میں چوہدری پرویز الٰہی، محمود خان اچکزئی، شفقت محمود، ڈاکٹر عارف علوی، عبدالرشید گوڈیل، سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری، شاہدہ اختر علی، جاوید اخلاص اور دیگر ارکان شریک ہوئے۔ کمیٹی نے پاکستان پوسٹ کے 2009ء کے بعد وسیع پیمانے پر خساروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس سے قبل پاکستان پوسٹ منافع میں تھا۔

بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ پاکستان پوسٹ کے اخراجات 20 ارب روپے سے بڑھ گئے ہیں، جبکہ آمدن 10 ارب روپے ہے۔ اس طرح ادارہ 10 ارب روپے کے خسارے سے دوچار ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ادارے کی سروسز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے دو ارب روپے کے قرضہ کے لئے کوریا سے رابطہ کرنے پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا ہے۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ کیا حکومت پاکستان اس قابل بھی نہیں کہ کسی ادارے کو چلانے کے لئے دو ارب روپے کے فنڈز دے سکے۔ سیکرٹری پاکستان پوسٹ نے بتایا کہ وزیراعظم کو ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے دو منصوبوں سے آگاہ کیا گیا تھا۔ ایک منصوبے کے تحت حکومت سے ڈھائی ارب روپے کے فنڈز مانگے گئے تھے تاکہ کوریئر، پارسلز اور منی آرڈر کی سہولیات میں جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں ایزی پیسہ کے ذریعے چھ ارب روپے منتقلی ہو رہی ہے۔ اس میں پاکستان پوسٹ کا حصہ 30 کروڑ سے کچھ زائد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ہمیں جدید آلات مشینری اور ٹیکنالوجی مل جائے تو ہم اس کاروبار کا 20 سے زائد کا حصہ پہلے مرحلے میں حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس ملک بھر میں 12 ہزار عمارتیں موجود ہیں۔

اجلاس کی کارروائی کے دوران حکام نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں کوریئر، پارسل اور منی آرڈر کا سالانہ کاروبار 300 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ پاکستان پوسٹ کا اس میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ سرکاری اداروں کی پوسٹل سروسز کو بھی نجی کمپنیوں کے ذریعے پورا کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے کورین بینک سے دو ارب روپے کے قرضے کے لئے رابطہ کیا گیا ہے۔ کمیٹی اراکین نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے واضح کیا کہ کیا حکومت پاکستان کسی ادارے کو دو ارب روپے کے فنڈز بھی نہیں دے سکتی۔ پاکستان پوسٹ کیوں اپنی سہولیات کو ٹھیکے پر دینا چاہتا ہے۔ 15 دنوں میں ماڈل بنا کر کمیٹی میں پیش کیا جائے۔ پی اے سی اس پر اپنی حتمی رائے دے گی۔ جب چھوٹی چھوٹی کمپنیاں معمولی انفراسٹرکچر کے ذریعے ایزی پیسے جیسے پرکشش کاروبار میں بے انتہا منافع کما سکتی ہیں تو اتنا وسیع انفراسٹرکچر رکھنے والا پاکستان پوسٹ اس میں کیوں پیچھے رہ گیا۔ سید خورشید شاہ، ڈاکٹر عارف علوی، محمود خان اچکزئی اور دیگر ارکان نے کہا کہ اس کاروبار میں پیچھے رہ جانے کی بنیادی وجہ پاکستان پوسٹ کے ملازمین میں استعداد کار نہ ہونا اس بارے میں کبھی کوئی حکمت عملی بنائی ہی نہیں گئی۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ 2009ء تک پاکستان پوسٹ چار گنا منافع کما رہا تھا۔ جدید ٹیکنالوجی آنے پر اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔ خسارے شروع ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ 10 ارب آمدن اور 20 ارب روپے تک کے اخراجات کیسے پہنچ گئے؟ سید خورشید شاہ نے کہا کہ سیکرٹری پاکستان پوسٹ سہولیات میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کروانے کا ماڈل لے کر آئے۔

اجلاس کی کارروائی کے دوران وزارت تجارت کے حسابات کی جانچ پڑتال بھی کی گئی۔ سیکرٹری تجارت نے واضح کیا کہ پاکستان کی شوگر ملز بالخصوص سندھ میں شوگر ملوں کی طرف سے گنے کے کاشتکاروں کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوا اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی شوگر پالیسی پر نظرثانی نہ ہونا ہے۔ یہ پالیسی ملک میں گنے کی کاشت میں اضافے کے لئے بنائی گئی تھی کیونکہ اس دور میں پاکستان چینی درآمد کرتا تھا۔ اب پاکستان چینی برآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے اور رواں سال شوگر ملوں کو دو ملین ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی ہے۔ 10 لاکھ سے زائد درآمد ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس درآمدی چینی کے لئے سبسڈی 180 روپے فی من گنے کی خریداری کے تناسب لی جا رہی ہے جبکہ سندھ میں گنا 130 روپے فی من تک خریدا جا رہا ہے جبکہ سرکاری نرخ 160 روپے ہے۔ گنے کے کاشتکاروں کی مشکلات میں کمی کے لئے پالیسی پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ انہوں نے بتایا کہ انٹرنیشنل مالیاتی ٹاسک فورس کے پاکستان کے حوالے سے کسی بھی ممکنہ فیصلے کے اثرات پاکستان کو جی ایس پی پلس کی سہولت پر مرتب نہیں ہونگے۔ یورپی یونین نے پاکستان میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حوالے سے صورتحال میں بہتری آنے کی بات کی ہے۔ پاکستانی اقدامات خصوصاً ہندو میرج ایکٹ، قومی انسانی حقوق کمیشن کے قیام اور پنجاب میں اینٹیں بنانے والے بھٹوں کے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی تعریف کی ہے۔ تاہم یورپی یونین نے پاکستان میں لیبر کے حوالے سے حالات کار کو مزید بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔ ہم نے کامیابی سے یورپی یونین کا جائزہ اجلاس کا مرحلہ عبور کر لیا ہے۔