77

کسی ادارے کے پاس آئین سے انحراف کا کوئی آپشن موجود نہیں، سپریم کورٹ کا حکم نامہ

اسلام آباد : سپریم کورٹ 90روز میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت کے حکم نامے میں کہا ہے کہ کسی ادارے کے پاس آئین سے انحراف کا کوئی آپشن موجود نہیں، آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 90روز میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ دستاویز ساتھ لائےہیں تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جی سر دستاویز ساتھ لایا ہوں، عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن کا جواب پڑھ کر سنایا کہ الیکشن کمیشن 8 فروری کو قومی،صوبائی اسمبلی انتخابات کرائے گا۔

سپریم کورٹ میں ایوان صدر کے گریڈ 22 کے افسر کے دستخط سے جواب جمع کرایا گیا ، جواب میں صدر مملکت کی جانب سے 8 فروری کوعام انتخابات کی تاریخ دینے پر رضا مندی ظاہر کی گئی ہے۔

جس پر سپریم کورٹ نے عام انتخابات سے متعلق آرڈر لکھوانا شروع کردیا، چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا صوبوں کوآٹھ فروری کو انتخابات کرانے پرکوئی اعتراض تونہیں ، چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلزنے یک زبان ہوکر جواب دیا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نےکہا کیا اب سارے خوش ہیں ، سپریم کورٹ میں سب فریقین نے رضامندی دے دی، چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن کے ممبران نے متفقہ فیصلہ کیا اس میں بھی کوئی ایشوتونہیں۔

عدالت نے حکم نامے میں کہا قومی اسمبلی وزیراعظم کی مشاورت سے صدر نے تحلیل کیں، علی ظفر نے صدرکے تیرہ ستمبرکے خط کی نشاندہی کی جوچیف الیکشن کمشنرکولکھا گیا، دونومبر دوہزارتئیس کی ملاقات کے بعد الیکشن کی تاریخ پراتفاق ہوا، تسلیم شدہ حقیقت ہے قومی اسمبلی نو اگست کووزیراعظم کی ایڈوائس پرتحلیل ہوئی، الیکشن کمیشن نے ستمبر میں صدرکے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔ اس بات کی تصدیق الیکشن کمیشن کے وکیل نےعدالت میں کی۔۔ صدرمملکت کے خط ملنے کی تصدیق الیکشن کمیشن نے بھی کی۔

حکم نامے کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں الیکشن ہوں ، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ امید کرتا ہوں آئندہ ایسی صورت حال پیدا نہ ہو۔

عدالت نے حکم نامے میں کہا قومی اسمبلی وزیراعظم کی مشاورت سےصدرنےتحلیل کیں، علی ظفر نے صدرکے تیرہ ستمبرکے خط کی نشاندہی کی جوچیف الیکشن کمشنرکولکھا گیا، دونومبر دوہزارتئیس کی ملاقات کےبعدالیکشن کی تاریخ پراتفاق ہوا، تسلیم شدہ حقیقت ہےقومی اسمبلی نو اگست کووزیراعظم کی ایڈوائس پرتحلیل ہوئی اور الیکشن کمیشن نے ستمبر میں صدرکے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔ اس بات کی تصدیق الیکشن کمیشن کے وکیل نےعدالت میں کی اور صدرمملکت کے خط ملنے کی تصدیق الیکشن کمیشن نے بھی کی۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پورا ملک شش و پنج میں تھا کہ ملک میں عام انتخابات نہیں ہورہے ، اس بات کوسمجھتے ہیں کہ عدالت دائرہ اختیار کو استعمال کرے، ہم صرف یہ چاہتے تھے صدر اور الیکشن کمیشن کو سہولت فراہم کریں، آئین اور قانون پر عمل درآامد ہر شہری پر فرض ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا صدر مملکت اور الیکشن کمیشن دائرہ اختیار میں رہیں، اعلیٰ آئینی عہدہ ہونے کے ناطے صدر مملکت کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے، الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ ہونے سے پورے ملک کو تشویش ہوئی اور کچھ نے خدشے کا اظہار کیا کہ الیکشن نہیں ہوں گے ،ہر آئینی ادارے اور صدر مملکت نے وہی کرنا ہے جو آئین کہتا ہے ، آئین کو نظر انداز کرنے کا کوئی آپشن نہیں۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ہر آئینی آفس رکھنے والااورآئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن ،صدر آئین کے پابند ہیں، آئین کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں، آئین پر علمداری اختیاری نہیں ، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیا، سپریم کورٹ آگاہ ہے ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔

عدالت نے مزید کہا کہ آئین سے انحراف کا کوئی آپشن کسی آئینی ادارے کے پاس موجود نہیں، آئین کو بنے 50 سال گزر چکے اب کوئی ادارہ لاعلم ہونے کا نہیں کہہ سکتا، 15سال قبل آئین کو پامال کیا گیا، بدقسمتی سےپاکستان میں متعدد بارآئین کو پامال کیا گیا۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا سپریم کورٹ نے سیاسی معاملے پر از خود نوٹس لیا، صدر نے تحریک عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کی جوغیر آئینی عمل تھا، تحریک عدم اعتماد کےبعدصدر وزیراعظم کی ہدایت پراسمبلی تحلیل نہیں کرسکتے۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے ہم نہ صرف آئین پرعمل کریں بلکہ ملکی آئینی تاریخ کودیکھیں ،آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، عدالتوں کو ایسے معاملات کا جلد فیصلہ کرنا پڑےگا ، قومی اسمبلی اس وقت تحلیل ہوئی جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آئی، وزیراعظم کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا ، اس وقت کے وزیراعظم نےاسمبلی تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا ۔

حکم نامے کے مطابق اسمبلی تحلیل کیس میں ایک جج نے کہا صدر پر پارلیمنٹ آرٹیکل6 کے تحت کارروائی کرے، عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال کیاجو ان کا نہیں تھا، صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا، عوام حق دارہیں کہ ملک میں عام انتخابات کرائے جائیں، ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارا کردار صرف سہولت کاری کا ہے۔

جسٹس مظہر عالم نے قرار دیا کہ غیرآئینی اقدامات پر آرٹیکل 6بھی لگ سکتا ہے، جسٹس مظہر عالم نے آرٹیکل چھ کے اطلاق کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑاتھا، ہر آئینی ادارہ آئین پرعملدرآمد کرنےکا پابند ہے، وقت آ گیا ہے کہ تمام ادارے سمجھداری کا مظاہرہ کریں، عوام کا حق ہے انتخابات ہوں اور عدالت کو الیکشن یقینی بنانےکااعزاز حاصل ہوا، انتخابات کی مقررہ تاریخ8 فروری پر تمام فریقین متفق ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا الیکشن شیڈول جاری کر دیا ہے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ الیکشن شیڈول دسمبر کے پہلے ہفتے میں جاری ہوگا، حلقہ بندی مکمل ہوتے ہی شیڈول جاری ہوگا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابی شیڈول پر الیکشن کمیشن کے ہاتھ باندھنا چاہتے ہیں، انتخابی شیڈول پہلے جاری کرنے میں کوئی مسئلہ ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے ہو بھی جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا حلقہ بندیاں شائع ہونے کے بعدہی شیڈول جاری ہوسکتاہے، صدر سے اتفاق کے بعد انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا، نوٹیفکیشن کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہونگے، ایڈووکیٹ جنرلز کے مطابق کسی صوبائی حکومت کوانتخابات کی تاریخ پراعتراض نہیں، وفاقی،صوبائی حکومتیں یقین بنائیں انتخابات 8 فروری کوبغیرکسی رکاوٹ مکمل ہو۔

جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت آئین وقانون کی کسی خلاف ورزی کی توثیق نہیں کر رہی، الیکشن کمیشن ہرقدم قانون کے مطابق اٹھائے، یقینی بنائےآٹھ فروری کوانتخابات بہرصورت ہوں، سپریم کورٹ کو پتہ ہے کیسے عملدرآمد کرانا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جس کو انتخابات ہونے پر اعتراض ہے گھر میں اپنی بیوی سے بات کر لے میڈیا پر نہیں، میڈیا پرانتخابات کےحوالےسےمایوسی پھیلانےپر اٹارنی جنرل پیمرا کے ذریعے کارروائی مکمل کریں، میڈیا نے شکوک وشہبات پیداکیےتووہ بھی آئین کی خلاف ورزی کریں گے، آزاد میڈیا ہے ہم انہیں بھی دیکھ لیں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا آپ نے عدالت کا دوستانہ چہرہ دیکھا ہے دوسرا چہرہ ہم دکھانا نہیں چاہتے ، شائستگی سےاپناپیغام زیادہ بہتراندازمیں پہنچایاجا سکتاہے، توقع ہےانتخابات اچھےماحول میں ہوں گے۔۔ اگرمیں زندہ رہاتومیں بھی یہی کہوں گا، اگر کسی سے فیصلے نہیں ہوپارہےتووہ گھر چلا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ انتخابات ان شااللہ 8 فروری کو ہوں گے،ہم نے انتخابات کے انعقاد کیلئے سب کوپابند کر دیا،کوئی رہ تو نہیں گیا، صدرمملکت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے پورے ملک کی تاریخ دے دی ہے، وفاقی حکومت اورصوبائی حکومتوں نے اتفاق کیاہے انتخابات کا انعقاد بغیر کسی خلل کے ہوگا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے 90 دن میں انتخابات کیلئے دائر درخواستیں نمٹا دیں۔