31

شہریوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کی سرکوبی ضروری ہے، سرفراز بگٹی

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ دھرنا اور احتجاج سردار اختر مینگل اور ان کی پارٹی کا حق ہے لیکن اس کی انتظامیہ سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے، ہم ان سے مذاکرات کریں گے اور محدود مینڈیٹ کے ساتھ جو کچھ بھی کر سکے کیا جائے گا،پارلیمان مکمل ہوجائے تو لاپتہ افراد کے معاملے پربامقصد بحث ہونی چاہیے۔

پیر کو ایوان بالا میں سینیٹر میاں رضا ربانی کے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) پچھلے پانچ سال کے دوران حکومتوں کا حصہ رہی ہے، آخری دنوں میں اسے بلوچستان کی حکومت میں بھی شمولیت کا موقع ملا، پارلیمان کا فورم ان کے پاس موجود تھا، بی این پی (مینگل) کو اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے دھرنے کی انتظامیہ نے اجازت دی تھی لیکن ان کی جماعت ریڈ زون میں آ گئی ہے اور احتجاج کرنے والوں میں سابق ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہیں، بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کی مختلف وجوہات ہیں، پارلیمان مکمل ہونے کے بعد اس مسئلے پر ایسی قانون سازی کرے کہ جو شر پسندی میں ملوث ہیں ان کے خلاف سکیورٹی فورسز کس طرح کی کارروائی کر سکتی ہیں۔

سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں تو بی ایل اے، بی ایل ایف، لشکر بلوچستان شرپسندانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں اور انہوں نے عام شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ کوئٹہ میں جو لوگ پچھلے سو سال سے آباد تھے، انہیں مجبوراً وہاں سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے، اساتذہ، ڈاکٹرز اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، اس کے ذمہ داروں کے خلاف سکیورٹی فورسز آپریشن کرتی رہتی ہیں، قانون کے تحت کسی کو بھی پرائیویٹ لشکر رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ دھرنا اور احتجاج اختر مینگل اور ان کی پارٹی کا حق ہے اس کو ہم چیلنج نہیں کریں گے لیکن اس کے لئے پہلے اجازت لی جانی چاہیے، ریڈ زون میں کسی اور کو احتجاج کی اجازت نہیں ہے تو انہیں بھی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی لیکن وہ اب یہاں آ گئے ہیں تو ہم ان سے مذاکرات کریں گے، ان کی بات سنیں گے، محدود مینڈیٹ کے ساتھ جو کچھ بھی کر سکے کریں گے۔