43

پارلیمنٹ نےالیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 کثرت رائےسے منظورکرلیا

پیپلز پارٹی کےسینیٹر رضا ربانی اور پی ٹی آئی کی مخالفت کے باوجود حکومت نگران وزیراعظم کےاختیارات سےمتعلق سیکشن230 سمیت پارلیمنٹ نےالیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 کثرت رائےسے منظورکرلیا۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پریزائڈنگ آفیسر کی طرف سے نتائج بروقت پہنچانے سے متعلق ترمیم منظورکرلی گئی جس کے مطابق پریزائڈنگ افسرنتائج کی فوری طور پرالیکشن کمیشن اورریٹرننگ آفیسر کو بھیجے گا، پریزائیڈنگ آفیسر حتمی نتیجے کی تصویربنا کر ریٹرننگ آفیسر اورالیکشن کمیشن کو بھیجے گا۔

بل کےمطابق انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی صورت میں پریزائیڈنگ آفیسر اصل نتیجہ فیزیکلی پہنچانے کا پابند ہوگا۔ اسکے علاوہ، پریزائیڈنگ آفیسر الیکشن کی رات 2 بجے تک نتائج دینے کا پابند ہوگا، پریزائیڈنگ آفیسر کو تاخیرکی صورت میں ٹھوس وجہ بتائے گا اور پریزائیڈنگ آفیسر کے پاس الیکشن نتائج کے لیے اگلے دن صبح 10 بجے کی ڈیڈ لائن ہوگی۔

کورم کی نشاندہی پر اسپیکر نے گنتی کی ہدایت کی جس پرانتخابات ایکٹ بل کی منظوری کا عمل روکا گیا تھا۔ حکومت کو مشترکہ اجلاس کا کورم پورا کرنے کے لیے 113 ارکان کی ضرورت تھی لہٰذا کورم پورا ہونے پر قانون سازی کا عمل دوبارہ شروع ہوا۔

قبل ازیں تحفظات دور کرنے کے لیے پالیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا،جس میں بل میں ترمیم کی گئیں۔ تحریک انصاف نے نگراں حکومتوں کو اضافی اختیارات کی مخالفت کی، تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر انتخابی اصلاحات کمیٹی سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔

حکومت نے نگراں حکومت کے اختیارات سے متعلق شق 230 بل سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق نگراں حکومت کو دو فریقی اور سہ فریقی معاہدوں کا اختیار ہوگا۔ نگراں حکومت کو پہلے سے جاری منصوبوں پر اداروں سے بات کرنے کا اختیارہوگا۔

نگراں حکومت کے اختیارات محدود ہوں گے جو کہ کوئی نیا معاہدہ نہیں کر سکے گی، نگراں حکومت پہلے سے جاری پروگرام اورمنصوبوں سے متعلق اختیار استعمال کر سکے گی۔

انتخابات ترمیمی بل 2023 پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا گیا جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ انتخابی اصلاحات بل میں سیکشن 230 کے علاوہ تمام سیکشنز پر کمیٹی کا اتفاق تھا۔ کل نگراں حکومت کے اختیارات کے معاملے پر ایشو بنا لیکن آج سردار ایاز صادق کی سربراہی میں کمیٹی کا ایک وضاحتی اجلاس ہوا ہے جس میں نگراں حکومت کے مزید وضاحت کر دی گئی ہے اور اب تمام ترامیم پر اتفاق ہوگیا ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے سیکشن 230 کے کلاز دو اے کی منظوری دے دی، سیکشن 230نگرں وزیر اعظم کے اختیارات سے متعلق ہے۔ میاں رضا ربانی اور پی ٹی آئی نے نگراں وزیر اعظم کو مزید اختیارات دینے کی مخالفت کی ہے۔

وزیر قانون اعظم تارڑ نے وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی کی ترمیم کی حمایت کی جبکہ سینیٹر مشتاق احمد خان کی ترمیم کی مخالفت کر دی۔ ایوان نے کثرت رائے سے سینیٹر مشتاق کی ترمیم مسترد کر دی۔ پی پی پی جام مہتاب نے اپنی ترمیم واپس لے لی۔

رضا ربانی

پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما رضا ربانی نے ایک بار پھر نگراں حکومت سے متعلق شق کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے الیکشن ایکٹ میں دیگر ترامیم پر کوئی اختلاف نہیں ہے، سیکشن 230 میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جس پر اختلاف تھا اور وزیر قانون کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ سیکشن 230 سے کچھ شقیں نکال دی گئی ہیں اور کچھ کو بہتر کر لیا گیا ہے۔ نگران حکومت کے اختیارات کو مزید بڑھانا درست نہیں ہے، پہلی بار ہوا کہ وزیراعظم کو خود کئی بار آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر سے ٹیلی فون پر بات کرنی پڑی، نئی نئی روایات رکھی جا رہی ہیں۔ بین الاقوامی سامراج کے کہنے پر ہمیں اپنی اسکیم سے ہٹنا پڑ رہا ہے، اب نیشنل انٹرسٹ کی جگہ اکنامک اور سیکیورٹی انٹرسٹ نے لے لی ہے۔

سینیٹر علی ظفر

اضافی اختیارات کی مخالفت کرنے والے تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات ترمیمی بل میں تین ترامیم شامل تھیں، بل میں دو ترامیم صرف پی ٹی آئی کے لیے شامل کی گئی تھیں لیکن انتخابات ترمیمی بل بارے پارلیمانی کمیٹی کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ آئین کے تحت حکومت پارلیمان کے تابع ہے، آئین میں نگران حکومت اور وزیراعظم کی تعریف مخصوص ہے، آئین میں نگراں حکومت کی ذمہ داری اور دائرہ کار واضح ہے۔ نگراں حکومت منتخب حکومت کی جگہ نہیں لے سکتی، نگراں کو منتخب حکومت کے اختیارات دینا آئین کا قتل ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ کل ایسی ترامیم پارلیمنٹ میں لائی گئی جس سے پارلیمانی جمہوریت کا سارا تصور تبدیل ہو جائے گا، اس ترمیم کا وزیر قانون نے بھی اعتراف کیا ہے اور نگراں حکومت کو مستقل سیٹ اَپ نہیں دے سکتے۔ انتخابی ترمیمی بل میں کی گئی ترامیم کافی نہیں ہیں اگر پارلیمنٹ نے ترامیم مسترد نہیں کیں تو دس دن بعد سپریم کورٹ کر دے گی، نگراں حکومت ایسے اقدامات نہیں کر سکتی جسے بعد میں تبدیل نہ کیا جا سکے، نگراں حکومت کا کام صرف شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانا ہے۔