72

سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا، چیف جسٹس

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف کیس میں چیف جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نو مئی سے متعلق فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔

لارجربینچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کیس میں جو بھی ہوگاوہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے، آپ کے مطابق ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوا تفتیش چل رہی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی ملزم کا ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا تو جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا ملٹری ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نوٹ کر رہے ہیں کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا جائے گا، شواہد ریکارڈ کئےجائیں گے اور ٹرائل کھلی عدالت میں ہو گا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کے دوران ملزمان کے اہلخانہ اور وکلاکو آنے کی اجازت ہوگی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کو سیل میں رکھا گیا ہے یا کمروں میں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کو جیل میں ہی رکھا گیا ہے لیکن دہشتگردوں کی طرح نہیں، تمام گرفتار افراد کو تمام تر ضروری سہولتیں دی گئی ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ گرفتار افراد پر دماغی یا جسمانی تشدد نہیں ہونا چاہئے، ہم کسی ریٹائرڈ جج کو102افراد سےملاقات کیلئےفوکل پرسن مقرر کرسکتےہیں، جس پر اتارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اس حوالے سے میں آپ کوان چیمبر بتاؤں گا، ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے، تو لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں ہوتا رہا ہے ، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ دور کا ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں ، اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔