37

سانحہ 9 مئی: بلاشبہ حملے سنگین لیکن ٹرائل منصفانہ ہونا چاہیے ، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس  عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کو ہونے والے حملہ بلاشبہ  سنگین ہیں، ایسے حملےکبھی نہیں ہوئے لیکن ٹرائل منصفانہ ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں  جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل  6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  9 مئی پر املاک کو ڈھائی ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا، فوجی تنصیبات کو تقریباً ڈیڑھ ارب کا نقصان پہنچایا گیا۔

اٹارنی جنرل نے 9 اور 10 مئی کے واقعات کی تصاویرعدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ون پر حملہ کرکے حملہ آور اندر داخل ہوئے، جی ایچ کیو میں فوجی مجسمے کو توڑا گیا، آرمی ہسٹری میوزیم ، آرمی سگنلز آفیسرز میس ، آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ، حمزہ کیمپ راولپنڈی پر حملہ کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کورکمانڈر ہاؤس لاہور کی تصاویربھی بینچ کوپیش کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں نے 9 مئی کو  پیٹرول بم استعمال کیے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا مظاہرین نے مسجد پر بھی حملہ کیا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مظاہرین نے 9 مئی کو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر مسجد پر بھی حملہ کیا، ایک حملہ آور نے کورکمانڈر کی وردی پہن لی تھی۔ تصاویر دکھانے کا مقصد یہ ہے کہ  9 اور 10 مئی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حملے کیے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو 102 افراد فوجی حراست میں ہیں ان کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائےگا؟ یہ  نکتہ بھی ہے کہ مجسٹریٹ کے اختیارات  دوسرا کون استعمال کرسکتا ہے؟۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کون سی دفعات لگائی گئی ہیں؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزمان کے جرائم سول نوعیت کے نہیں ، ملزمان پر دفعہ 302 کا اطلاق بھی کیا گیا ہے۔

جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نے سوال کیا کہ کیا کسی آرمی افسر کی ڈیتھ  بھی ہوئی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی آرمی افسر کے جانی نقصان کی کوئی اطلاعات نہیں۔ جسٹس مظاہر نے کہا کہ جب کسی آرمی افسر کی ڈیتھ نہیں ہوئی تودفعہ 302 کیسے لگا دی گئی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ  بہتر ہوگا اس معاملے پرآپ ہدایات لے لیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ  جو آج حقائق بتائے ان کی بنیاد پر کہہ رہا  تھا کہ فل کورٹ بنا کر کیس سنا جائے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اب آپ آئینی نکات اٹھا رہے ہیں، یہ بتائیں کہ کیسے ٹرائل منصفانہ ہوں گے؟ بلاشبہ 9 مئی کو ہونے والے حملے بہت سنگین نوعیت کے ہیں، گرفتار افراد ٹرائل میں جانے کو تیار ہیں لیکن ٹرائل منصفانہ ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سیکشن 7 کے تحت ملٹری کورٹس میں سزا کتنی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکشن 7  اور 9 کے تحت فوجی عدالتوں میں سزا 2 سال قید ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے  کہا کہ آپ آرمی ایکٹ پر ہدایات لے لیں، آرمی ایکٹ ایک مخصوص کلاس پر لگتا ہے، سب پر نہیں لگتا، آپ ایک دو دن کا وقت لے لیں۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت جمعے کی صبح 9:30 بجے تک ملتوی کردی۔