آپ نے اکثر ایسی خبریں دیکھی یا سنی ہوں گی کہ دنیا کے کسی حصے میں اتنے برس قدیم درخت کو کاٹ دیا گیا جو ماحول کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔
دراصل درخت فضا میں پھیلی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ہوا کی آلودگی کو کم کرتے ہیں، درخت جتنا بڑا اور پرانا ہوگا وہ اتنی ہی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرے گا۔
چنانچہ کسی بڑے اور پرانے درخت کے کٹ جانے کے نقصان کی کوئی تلافی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی جگہ نئے درختوں کو اتنی ہی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے قابل ہونے میں ایک طویل وقت درکار ہوگا۔
لیکن کسی درخت کی عمر کیسے معلوم کی جاسکتی ہے؟
جب کوئی درخت گر جاتا ہے یا کاٹا جاتا ہے تو اس کے تنے کے ٹکڑے میں بنے دائروں سے اس کی عمر معلوم کی جاسکتی ہے۔
تنے پر دکھائی دینے والا ہر دائرہ ایک سال کو ظاہر کرتا ہے یعنی ان دائروں کو گن کر درخت کی عمر معلوم کی جاسکتی ہے۔
لیکن یہ دائرے صرف درخت کی عمر ہی نہیں بتاتے، درخت دراصل گزرے ہوئے موسموں کی پوری تاریخ رکھتے ہیں جس کا اظہار ان دائروں سے ہوتا ہے۔
دائروں کی موٹائی یا باریکی موسموں کی اونچ نیچ کا پتہ بتاتی ہے۔ درخت سال میں کسی وقت تیزی سے بڑھتا ہے اور کسی وقت اس کی افزائش کم ہوجاتی ہے یا رک جاتی ہے۔
درخت کی افزائش کا تعلق موسم کے موزوں ہونے سے ہے، دائرے کی زیادہ موٹائی کا مطلب درخت کی اچھی افزائش سے ہے جس کا مطلب ہے کہ درخت نے اس متعلقہ برس کے دوران اپنی ضرورت سے زیادہ خوراک حاصل کی تھی۔
یعنی اس سال بارشیں زیادہ ہوئیں، زمین سیراب اور زرخیز رہی اور یوں درخت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
دائرے کی باریکی اس کی کم خوراکی اور سست افزائش کی طرف اشارہ کرتی ہے، یعنی جس سال درخت کو زمین سے پانی اور نمکیات کم ملے، اس کا مطلب ہے کہ اس سال یا تو بارشیں ضرورت سے کم ہوئیں یا پھر وہ خشک سالی یا قحط کا سال تھا۔
درختوں کی اسٹڈی کے ماہر جنہیں ڈینڈو کرونولوجسٹ کہا جاتا ہے، ان دائروں کو باریک بینی سے پڑھ کر گزرے تمام سالوں کے دوران موسم کی تبدیلیوں کا ایک ریکارڈ مرتب کرسکتے ہیں جو موسمی تاریخ کو جاننے اور مستقبل کے لیے تحقیق میں مدد دیتا ہے۔