سائنسدانوں نے پہلی بار ایک بلیک ہول کے سائے اور اس سے خارج ہونے والے مواد کی تصویر کھینچنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
یہ بلیک ہول ایک کہکشاں ایم 87 کے وسط میں واقع ہے اور 2019 میں انسانی تاریخ کی بلیک ہول کی پہلی تصویر بھی اسی کی کھینچی گئی تھی۔
مگر اس نئی تصویر سے سائنسدانوں کو بلیک ہول کے رویوں کو جاننے میں مدد مل گی اور یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ بلیک ہول کس طرح مادے کو خارج کرتے ہیں جو کائنات کے گرد پھیل جاتا ہے۔
ایم 87 کہکشاں زمین سے ساڑھے 5 کروڑ نوری برسوں کے فاصلے پر واقع ہے اور اس تصویر کے حصول کے لیے متعدد ٹیلی اسکوپس کو باہم ملا کر زمین کے حجم کی ورچوئل ٹیلی اسکوپ تیار کی گئی تھی۔
جس بلیک ہول کی تصویر کھینچی گئی وہ ہمارے سورج سے ساڑھے 6 ارب گنا زیادہ بڑا ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ ایک بلیک ہول اتنی طاقت سے مادے کو خارج کرتا ہے جو خلا میں دور دور تک پھیل جاتا ہے۔
جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں تھا کہ بلیک ہولز کس طرح مادے کو خارج کرتے ہیں اور اسی پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔
محققین کے مطابق اس نئی تصویر میں بلیک ہول کے اردگرد کے حصوں کے ساتھ مادے کے اخراج کو دکھایا گیا۔
جب یہ مادہ بلیک ہول کے گرد گردش کرتا ہے تو گرم ہونے کے بعد ریڈی ایشن خارج کرتا ہے جس سے روشنی پیدا ہوتی ہے۔
یہ روشنی گول دائرے جیسا اسٹرکچر بناتی ہے اور یہ اسٹرکچر بلیک ہول کے سائے کے گرد جگمگاتا ہے۔
خیال رہے کہ کائنات کے اسراروں میں سے ایک اسرار بلیک ہول بھی ہے جسے جاننے اور سمجھنے کے لیے سائنسدان تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔
بلیک ہول کائنات کا وہ اسرار ہے جسے کئی نام دیے گئے ہیں، کبھی اسے ایک کائنات سے دوسری کائنات میں جانے کا راستہ کہا جاتا ہے تو کبھی موت کا گڑھا۔
کوئی بھی ستارہ بلیک ہول اس وقت بنتا ہے جب اس کے تمام مادے کو چھوٹی جگہ میں قید کردیا جائے۔ اگر ہم اپنے سورج کو ایک ٹینس بال جتنی جگہ میں مقید کردیں تو یہ بلیک ہول میں تبدیل ہوجائے گا۔