امریکا، برطانیہ اور کینیڈا کے بعد آسٹریلیا نے بھی سرکاری ڈیوائسز پر ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردی۔ فیصلے کے بعد آسٹریلیا قومی سلامتی کے خدشات کی وجہ سے چینی ملکیت والی ایپ کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے والے مغربی ممالک کی بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل ہوگیا۔
آسٹریلوی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک پر پابندی کا فیصلہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مشورے کے بعد کیا گیا اور جلد سے جلد اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ انڈیپینڈنٹ اردو کے مطابق آسٹریلیا خفیہ فائیو آئیز سیکیورٹی الائنس کا آخری رکن ہے، جس نے اپنے اتحادیوں امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ مل کر ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی ہے۔
اس سے قبل امریکا، کینیڈا، برطانیہ فرانس، نیدرلینڈز اور یورپی کمیشن بھی اسی طرح کے اقدامات کرچکے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ حکومت ’کیس بہ کیس کی بنیاد پر‘ ٹک ٹاک کے استعمال کیلئے کچھ استثنیٰ کی منظوری دے گی جس میں ’مناسب حفاظتی اقدامات‘ کئے جائیں گے۔
اٹارنی جنرل کے محکمے نے ایک سیکیورٹی نوٹ میں کہا ہے کہ ٹک ٹاک صارفین کے ڈیٹا کے وسیع پیمانے پر جمع ہونے کی وجہ سے ’سیکیورٹی اور پرائیویسی کیلئے اہم خطرات‘ پیدا کررہا ہے۔
سائبر سیکیورٹی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایک ارب سے زائد عالمی صارفین کے زیر استعمال اس ایپ کو چینی حکومت کے ساتھ شیئر کئے جانے والے ڈیٹا کو جمع کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سروے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 7 ملین (70 لاکھ) آسٹریلوی اس ایپ کا استعمال کرتے ہیں جو مجموعی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے۔
آسٹریلین اسٹریٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار فرگوس ریان کا اے ایف پی سے گفتگو میں کہنا ہے کہ ٹک ٹاک کو سرکاری ڈیوائسز سے ہٹانا کوئی مشکل فیصلہ نہیں ہے، یہ سالوں سے واضح ہے کہ ٹک ٹاک صارفین کا ڈیٹا چین میں قابل رسائی ہے، اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے سرکاری فون پر ایپ کے استعمال پر پابندی لگانا ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے۔
اس معاملے پر ٹک ٹاک حکام کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پابندیوں کی جڑیں غیرملکیوں سے نفرت پر مبنی ہیں، اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ چینی حکومت کی ملکیت نہیں ہے اور نہ وہ اسے چلاتی ہے۔
کمپنی کے آسٹریلوی ترجمان لی ہنٹر نے کہا کہ وہ چینی حکومت کو کبھی بھی ڈیٹا نہیں دیں گے۔