326

ناسا میں 35 سال سے خدمات سر انجام دینے والا پاکستانی سائنسدان

بچپن سے مجھے رات کی تاریکی میں آسمان پر جھلملاتے ان گنت ستارے اور کٹورا سا چاند اپنے سحر میں جکڑتے آئے ہیں، بہت چھوٹی عمر میں آسمان کی ان بے کراں وسعتوں سے بننے والا میرا یہ تعلق بتدریج عمر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مضبوط تر ہوتا گیا اور اب یہ میرا جنون بن چکا ہے۔

بسا اوقات فلکیاتی علوم میں اپنی قابلیت کا سکہ بٹھانے والی دنیا بھر کی نامور شخصیات کے بارے میں پڑھتے ہوئے مجھے شدید حیرت ہوئی کہ ٹیلنٹ کی کمی نہ ہونے کے باوجود کیوں آج تک میرا کوئی بھی ہم وطن امریکی خلائی ادارے 'ناسا' (جسے دنیا بھر میں خلائی مشنز کے حوالے سے ایک مستند ادارہ سمجھا جاتا ہے) تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔

ایسی شخصیت کی تلاش اور کھوج کے دوران میری ملاقات اسلام آباد میں ڈائریکٹر تھیو ریٹیکل فزکس ڈیپارٹمنٹ، نیشنل سینٹر فار فزکس ڈاکٹر محسن صدیق سے ہوئی، جن کے ذریعے میرا رابطہ پاکستانی انجینئر/ سائنسدان جناب منصور احمد سے ممکن ہوا، جو گذشتہ 35 سال سے ناسا میں مختلف عہدوں پر خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں، اور فی الوقت ڈائریکٹر ایسٹرو فزکس پراجیکٹ ڈویژن کے علاوہ فزکس آف کاسموس اینڈ کوسمک اوریجن پروگرام، گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر، میری لینڈ کے پروگرام مینیجر بھی ہیں۔

جناب منصور احمد نے اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ 'ہبل ٹیلی سکوپ پروگرام' میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے گزارا ہے، جس میں فلائٹ آپریشن مینیجر اور پراجیکٹ مینیجر کے عہدے قابل ذکر ہیں، وہ اگلے برس 2019 میں لانچ کی جانے والی جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے ڈپٹی پراجیکٹ مینیجر، اور لیزر انٹرر فیرو میٹر اسپیس انٹینا (لیزا) مشن کے پراجیکٹ مینیجر کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں، جو ناسا اور یوریپین اسپیس ایجنسی کا مشترکہ منصوبہ تھا۔

جناب منصور احمد سے پشاور میں ان کی ابتدائی زندگی سے لیکر ناسا میں اہم عہدوں تک رسائی اور بتدریج کامیابیوں کا زینہ چڑھنے سے متعلق کچھ سوالات پوچھے گئے، جو آپ کے پیش خدمت ہیں۔

سوال: آپ پشاور میں پیدا ہوئے اور یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی، ہمیں اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتائیے، بچپن یا نوجوانی کا کوئی یادگار واقعہ جو آج بھی آپ کو یاد ہو؟

منصور احمد خان: ہمارا گھر پشاور کے قریب قلعہ بالا حصار کے نزدیک تھا، اور میرے والد پاکستان آرمی میں صوبیدار تھے، میں نے پرائمری تک تعلیم کرسچین ہائی اسکول سے حاصل کی، اور میٹرک گورنمنٹ سیکنڈری اسکول پشاور سے کیا، وہاں ہمارا گھر ناز سنیما کے بلکل سامنے تھا، جو اس دور میں پشاور کا واحد سنیما تھا، جہاں انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں، فلم میکنگ کا جو شوق آج تک میرے ساتھ ہے، دراصل یہ انہی دنوں پیدا ہوا، ایک دفعہ میرے والد مجھے 'وائی کنگ' نامی فلم دکھانے لے کر گئے، اگرچہ اس وقت مجھے انگلش کچھ اتنی زیادہ سمجھ نہیں آتی تھی، مگر میں اس فلم اور سنیما کے ماحول سے کچھ اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ کافی عرصے تک اگر مجھ سے پوچھا جاتا کہ تم بڑے ہوکر کیا بنو گے تو میں جواب دیتا کہ میں ناز سنیما میں ٹکٹ کلیکٹر بنوں گا، میرے کچے ذہن کی سوچ تھی کہ اس طرح میں وہاں چلنے والی ساری فلمیں دیکھ سکتا تھا۔

پھرایک دفعہ اپنے رشتہ داروں کے گھر جانے کا اتفاق ہوا جو پاک فضائیہ ایئر بیس پشاور کے قریب رہائش پزیر تھے، اپنے قیام کے دوران میں روز وہاں ایف 86 طیاروں کو اترتے دیکھتا تھا، ایک روز طیارے کے کھلے کاک پٹ سے پائلٹ نے میرے جانب ہاتھ ہلایا تو میرے مستقبل کے منصوبے تبدیل ہوگئے،اور اب پائلٹ بننے کی دھن مجھ پر سوار ہوگئی، گورنمنٹ ہائی اسکول میں میرے ایک دوست نے میرا شوق دیکھتے ہوئے مجھے مری کے قریب واقع ایئر فورس اکیڈیمی لوئر ٹوپا کے بارے میں بتایا، جہاں ہر برس 60 طلباء کو داخلہ دیا جاتا تھا تاکہ انھیں انٹر میڈیٹ کے بعد ایئر فورس کے لیے پہلے سے تیار کیا جاسکے، ہم دونوں نے مئی 1966 میں 13 برس کی عمر میں کیڈٹ اکیڈیمی میں داخلہ لے لیا۔

سوال: عموماً یہ بات مشاہدہ کی گئی ہے کہ پاکستان میں صرف مخصوص ذہنیت رکھنے والے افراد فلکیات اور خلائی علوم میں دلچسپی رکھتے ہیں اور والدین اپنے بچوں کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کرتے کہ وہ فلکیات کو باقاعدہ پیشے کے طور پر منتخب کریں،اس حوالے سے آپ کے والدین کتنے مددگار رہے، اگر آپ کے بچوں میں سے کوئی ایسٹرا نامی یا ایسٹرو فزکس کی جانب جانا چاہے تو کیا آپ ان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے؟

منصور احمد خان: میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کے دو رخ ہیں، پہلی بات تو یہ کہ عموماً والدین اپنے بچوں کے لیے پیشے کے انتخاب میں زیادہ تر یہ سوچتے ہیں کہ انہیں ایسے شعبے میں جانا چاہیے جس میں مستقبل میں انہیں مالی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے، مگر بد قسمتی سے ان کی نظر میڈیکل یا انجینئرنگ جیسے گنے چنے پیشوں پر پڑتی ہے، جن کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ ان سے اچھی تنخواہ والی نوکری با آسانی حاصل کی جاسکتی ہے، مگر درحقیقت بچے ان دوسرے شعبوں کی طرف رجحان رکھتے ہیں جنھیں پاکستان کے اسٹیٹس کو والے معاشرے میں زیادہ قابل احترام نہیں سمجھا جاتا۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر بچوں کو ان کے طبعی رجحان کے مطابق من پسند شعبے میں جانے دیا جائے تو وہ بلاشبہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے، چاہے وہ انجینئرنگ ہو، میڈیسن، میوزک، کھیل یا کوئی اور شعبہ ہو، اب فلکیات کو ہی لے لیجیے اگرچہ پاکستان میں اس پیشے میں زیادہ ملازمتیں میسر نہیں ہیں، لیکن اگر بچوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ابتداء ہی سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو کوئی شک نہیں کہ ہمیں کائنات کے بہت سے مخفی سوالات کے جوابات مل جائیں گے اور پاکستان کے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہوگی، مگر میرا کیس ایسا نہیں تھا، ظاہر ہے میرے والد مجھے نازسنیما میں ٹکٹ کلیکٹر تو نہیں بننے دیتے مگر وہ ایئر فورس میں جانے پر میری حوصلہ افزائی ضرور کرتے۔