سان ڈیاگو: ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے نسل پرستی کا سامنا کیا ہوتا ہے ان کو بعد کی زندگی میں ممکنہ طور پر یادداشت کے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔
امریکا میں کیے جانے والے دو مطالعوں کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والے سیاہ فام، ایشیائی اور اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والوں کی دماغی صحت پر دیرپا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
گزشتہ تحقیقوں میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا تھاکہ سیاہ فام افراد کو ڈیمینشیا لاحق ہونے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں لیکن صحت کے نظام تک رسائی میں رکاوٹوں کے سبب وقت پر اس کی تشخیص کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
الزائمرز سوسائٹی میں ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر آف ریسرچ ڈاکٹر رچرڈ اوکلے کا کہنا تھا کہ ان نتائج میں جو خوفناک بات ہے وہ یہ ہے کہ نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا اقلیتی گروہ کے لوگوں پر صرف فوری اثر نہیں ہوتا بلکہ یہ ان کی دماغی صحت پر دیرپا اثرات ڈال سکتا ہے، اور ان کی بعد کی زندگی میں یادداشت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے لیے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں منعقد ہونے والی الزائمرز ایسوسی ایشن انٹرنیشنل کانفرنس 2022 میں پیش کی جانے والی اس تحقیق میں الزائمر کےبرطانوی خیراتی ادارے نے حکومت سے درخواست کی کہ ڈیمینشیا کی تحقیق کے لیے جو فنڈز کا عزم کیا گیا ہے اس کو پورا کریں۔