250

ٹی بی ویکسین کا ٹیکہ رگ میں لگانا زیادہ مؤثر

میری لینڈ: اگرٹی بی ویکسین گوشت یا جلد کی بجائے براہِ راست رگ میں لگائی جائے تو اس سے تپِ دق کے مرض کو ختم کرنے میں ڈرامائی نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ اب بھی ٹی بی عالمی امراض اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے اور ہر سال 15 لاکھ افراد اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اسے روکنے کے لیے گزشتہ 80 برس سے بی سی جی ویکسین استعمال ہورہی ہے جو پیدائش کے وقت یا ابتدائی عمر میں پٹھے (مسل) میں لگائی جاتی ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، ویکسین پھیپھڑوں کی ٹی بی کو روکنے میں ناکام رہتی ہے۔

اب میری لینڈ کے نینشل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی کے رابرٹ سیڈر کہتے ہیں کہ شاید 80 برس سے ہم ویکسین درست طور پر نہیں دے رہے۔ عام طور پر اس کا ٹیکہ جلد میں لگایا جاتا ہے لیکن اگر براہِ راست نس میں لگایا جائے تو اس کی افادیت بڑھ سکتی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹروں نے ایک اہم تجربہ کیا اور انہوں نے بندروں کو دس دس کی تعداد میں دو گروہوں میں تقسیم کیا۔ اس کے بعد 10 بندروں کو رگ میں اور بقیہ 10 کی جلد میں ٹی بی ویکسین لگائی گئی۔

چھ ماہ بعد ان بندروں میں ٹی بی کا جراثیم داخل کیا گیا تو جلد پر انجکشن لگانے والے دس میں سے صرف دو بندر ہی بیماری سے محفوظ رہے۔ دوسری جانب جن بندروں کے گروہ کو خون کی رگ میں ویکسین دی گئی ان میں سے صرف ایک ہی ٹی بی کا شکار ہوا باقی نو بندر بیماری سے بچے رہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ رگ میں ٹیکہ لگانے سے ویکسین خون میں گردش کرتی ہے جس سے قدرتی جسمانی نظام زیادہ قوی ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رگ میں ویکسین لگانے سے پھیپھڑوں میں ٹی سیلز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا اور یہ عمل جسمانی نظام کو مضبوط بنا کر پھیپھڑوں کو ٹی بی سے بچاتا ہے۔

سائنسدانوں نے اس کی سادہ سی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ بی سی جی ویکسین جلد میں لگائے جائے تو ٹی سیلز اسی مقام پر جمع ہوتے رہتے ہیں اور بہت کم ہی پھیپھڑوں تک پہنچتے ہیں لیکن اس کے برعکس نس میں لگائے جانے والے انجکشن کی دوا خون میں جاتی ہے اور پھر رطوبت پہنچانے والی لمفی نوڈز میں چلی جاتے، وہاں سے یہ پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے۔ اس طرح پھیپھڑوں کے اندر ٹی سیلز بنتے رہتے ہیں اور ٹی بی کے حملے کو زائل کرتے رہتے ہیں۔ بندروں کے بعد اب انسانوں پر اس طریقہ کار کی آزمائش کی جائے گی تاہم اس میں 18 ماہ لگ سکتے ہیں لیکن اس طرح رگ میں ویکسین لگانے میں احتیاط اور وقت درکار ہوتا ہے۔

مثلاً ایک طبی کارکن بہت تیزی اور سہولت سے 100 بچوں کو جلد میں ٹیکہ لگا سکتا ہے لیکن دوسری جانب ایسے ہی 100 بچوں کو رگ میں انجکشن لگانا پڑے تو یہ بہت احتیاط کا حامل اور وقت طلب کام ہوجائے گا۔ اس سے بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن کا عمل بھی سست پڑسکتا ہے۔ رابرٹ سیڈر کے مطابق اگر یہ طریقہ آسان بنالیا جائے تو ٹی بی سے بچاؤ میں ایک بڑا گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔