سعودی عرب: انسانی جسم میں دوڑتے لہو میں موجود گلوکوز کے ذریعے توانائی حاصل کرکے خود خون میں شکر کی مقدار ناپنے والا ایک آلہ بنایا گیا ہے جسے بدن میں مستقل طور پر ایک پیوند کی صورت میں لگایا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں ذیابیطس کے شکار کروڑوں افراد کو دن میں کئی مرتبہ بلڈ شوگر معلوم کرنا ہوتی ہے کیونکہ خون میں شکر کی مقدار کو قابو رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
بار بار گلوکومیٹر سے خون کی شکر کی مقدار معلوم کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور متبادل کے طور پر خود جسم میں ایک پیوند لگانے کی تجاویز پیش کی جاتی رہی ہے لیکن اس پیوند کو برقی رو فراہم کرنا ہمیشہ سے ہی ایک مسئلہ رہا ہے۔ کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (کے اے یو ایس ٹی) کے سائنسدانوں نے ایک نیا آلہ تیار کیا ہے جو جسم کے اندر خون اور دیگر مائعات سے اپنی بجلی بنا کر طویل عرصے تک گلوکومیٹر کو بجلی پہنچاتا رہتا ہے۔ اس کی تیاری میں زندہ جسموں کے لیے انتہائی موزوں بایو کمپٹیبل پالیمراستعمال کیے گئے ہیں۔
اس کی تیاری میں این ٹائپ سیمی کنڈکٹر کے ساتھ ایک خاص خامرہ (اینزائم) گلوکوز آکسیڈیز بھی شامل کیا گیا ہے۔ جب یہ اینزائم اپنی اطراف میں گلوکوز سے ملتا ہے تو اس کے الیکٹران کھینچ کر پالیمر تک لاتا ہے اس طرح یہ جسم میں شکر کی مقدار بتاسکتا ہے یہاں تک کہ انسانی لعاب سے بھی گلوکوز کی خبر دے سکتا ہے۔ اس میں پالیمر ایندھنی سیل کے لیے اینوڈ کا کام کرتا ہے اور اسے دوسرے پالیمر کی کیتھوڈ سے ملایا جاتا ہے۔ اس طرح وہ خون میں موجود گلوکوز اور جسم میں پائی جانے والی آکسیجن سے بجلی بناتا رہتا ہے اور اس پیوند کے لیے کسی قسم کی بیٹری کی ضرورت نہیں رہتی۔
اس پیوند کی ایک حد یہ ہے کہ ایک مرتبہ جسم میں لگانے کے بعد یہ 30 دن تک کام کرتا رہتا ہے اور اس کے بعد بے کار ہوسکتا ہے لیکن ایک جانب تو یہ گلوکومیٹر سے جان چھڑاتا ہے تو دوسری جانب اس کی میعاد بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اپنی تمام تر خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ یہ دنیا کی پہلی ایجاد ہے جو بدن کی قوت سے کسی اینزائم کے ذریعے بجلی بناتا ہے۔