بوسٹن: اگر 60 سال کے بزرگوں کے دماغ میں بجلی کے ہلکے کوندے دوڑائے جائیں تو اس سے حافظہ بہتر ہوتا ہے بلکہ بعض افراد کی یادداشت وقتی طور پر اتنی بہتر ہوجاتی ہے جس طرح وہ 20 سال کی عمر میں ہوا کرتی تھی۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ تجربات بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ رین ہارٹ اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیئے۔ مجموعی طور پر تجربات میں 42 افراد کی عمر 20 سے 30 برس اور دیگر 42 افراد کی عمر 60 سے 76 برس تھی۔ رابرٹ کے مطابق ’ وہ دن دور نہیں جب عمررسیدہ عام افراد یا ڈیمنشیا اور الزائیمر کے مریض ہسپتالوں میں آکر دماغ میں بجلی کے کوندوں سے اپنی یادداشت بڑھائیں گے‘۔
پروفیسر رابرٹ نے بتایا کہ اس علاج کا مقصد لوگوں میں ’ عملی حافظہ‘ درست کرنا ہے جو چند سیکنڈ تک برقرار رہ کر کسی کام کے لیے مددگارہوتا ہے، مثلاً دماغ میں حساب کتاب لگانا یا کسی ٹوٹی ہوئی شے کو جوڑنا وغیرہ، اس کیفیت کو دماغی ورک بینچ بھی کہا جاتا ہے جو بل کی ادائیگی، وقت پر دوا کھانے، سودا خریدنے اور منصوبہ بندی میں ضروری ہوتی ہے۔
آپ کا شعور بھی دماغ میں عین اسی مقام پر ہوتا ہے جہاں عملی معلومات موجود ہوتی ہیں تاہم عملی یادداشت کو بجلی کے کوندوں سے بہتر بنانے کا یہ پہلا تجربہ نہیں اور اس سے قبل بھی بہت کام ہوچکا ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین کا طریقہ ایسے عمررسیدہ افراد کے لیے موزوں ہے جو بار بار بھول جاتے ہیں کیونکہ ایک بار بجلی دینے کا عمل ایک گھنٹے تک یادداشت کو تیزرکھتا ہے۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی میں نیورولوجی کے پروفیسر بیری گورڈن نے اس ٹیکنالوجی کو نہایت عمدہ قرار دیا ہے لیکن انہوں نے اس پر مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے تجربات کے لیے ماہرین کی کھوپڑی پر ایک بہت تنگ ٹوپی پہنائی جس پر دماغی لہروں کو نوٹ کرنے والے برقیرے (الیکٹروڈ) لگے تھے۔ جب کھوپڑی میں کرنٹ دیا گیا تو رضاکاروں کے کھجلی اور کھنچاؤ کی شکایت کی۔ یہ عمل 30 سیکنڈ تک جاری رہا اور اس کے فوائد دیکھے گئے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ دماغ میں ہلکی بجلی دوڑانے سے پری فرنٹل کارٹیکس اور ٹیمپرل کارٹیکس کے درمیان رابطے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے جس کا عملی مظاہرہ سامنے آیا ہے۔ بجلی دینے کے بعد بوڑھے افراد کو کئی قسم کے یادداشتی ٹیسٹ سے گزارا گیا جن میں انہوں نے بہترین کارکردگی دکھائی۔