بوسٹن: آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) سے نہ صرف ماحول کا بیرون متاثر ہورہا ہے بلکہ اہم قدرتی مقامات اندر سے بھی بدل رہے ہیں۔ اب تازہ خبر یہ ہے کہ اس صدی کے اختتام تک 50 فیصد سمندروں کے پانی کی رنگت تبدیل ہوجائے گی اور وہ قدرے نیلی اور گہری سبز رنگت اختیار کرجائیں گے۔
میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ماہرین نے حساس آبی ماحولیاتی نظام کو دیکھتے ہوئے ایک کمپیوٹر ماڈل بنایا اور اس کی تفصیلات شائع کرائی ہیں۔ تاہم تبدیلی رنگ بدلنے تک محدود نہیں بلکہ یہ سمندری صحت میں سنجیدہ تبدیلیوں کی علامت بھی ہوگا۔
اس وقت انسانی مداخلت سے سمندروں کے مرجانی چٹانیں (کورل ریف) تباہ ہورہے ہیں، ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھ رہی ہے اور سمندروں کا درجہ حرارت بدل رہا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جب سورج کی روشنی پانی کے سالمات (مالیکیول) سے گزرتی ہے تو وہ کچھ شعاعوں کو جذب کرلیتے ہیں اور نیلی رنگت والی روشنی کو منعکس کردیتے ہیں اور اس طرح سمندری پانی نیلا دکھائی دیتا ہے۔
لیکن سمندر محض پانی کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں ہرجسامت ، شکل اور قسم کی حیات موجود ہے۔ پھر سمندری مرجانی چٹانیں آبی حیات کی نرسریاں کہلاتی ہیں اور سمندروں کی رنگت ان کا حال بھی بیان کرتی ہے۔ سب سے بڑھ کرپانی پر تیرتے خردبینی فائٹو پلانکٹن ( باریک الجی) دھوپ میں موجود نیلی روشنی جذب کرکے سبز روشنی لوٹاتےہیں۔
ماہرین نے کمپیوٹر ماڈلنگ سے بتایا کہ آب وہوا میں تبدیلی سے فائٹوپلانکٹن کی شرح اور کیفیت بدلے گی اور وہ قدرے زیادہ سبز رنگت خارج کریں گے۔ یہ تبدیلی سمندروں میں تیزابیت بڑھنے سے واقع ہوگی ۔ یہ کمپیوٹر نقول (سیمولیشن) ثابت کرتی ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے صدی کے اختتام تک اوسط درجہ حرارت تین درجے بڑھ جائے گا اور یوں سمندروں کا رنگ بھی بدلے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ ایک جانب فائٹوپلانکٹن بڑھیں گے تو دوسری جانب کم ہوں گے اور یوں سمندر کہیں سے گہرے نیلے اور کہیں پر زیادہ سبز دکھائی دیں گے۔