88

سوئی نہ چبھوئیں، کاغذی سینسر سے بلڈ شوگر معلوم کریں

ریاض: سعودی عرب کے ماہرین نے انک جیٹ پرنٹر سے کاغذ پر چھاپے جانے والا سینسر تیار کیا ہے جو تھوک کی مدد سے خون کے اندر شکر کی مقدار بتاسکتا ہے۔ اس طرح بار بار انگلی میں نوک چبھو کر ذیابیطس کے اتار چڑھاؤ معلوم کرنے کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔

’ فلیکسیبل الیکٹرونکس‘ نامی جریدے میں شائع رپورٹ کے مطابق کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حیاتیاتی ماہر ساہیکا عنال، انجینئر خالد سلامہ اور مٹیریل کے ماہر دریا باران نے مشترکہ طور پر یہ اہم شے ایجاد کی ہے۔

سب سے پہلے انہوں نے اِنک جیٹ پرنٹر کی عام روشنائی (انک) میں ایسے پالیمر شامل کیے جن سے بجلی گزرسکتی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے چمکیلے کاغذ کی پٹیوں پر خردبینی برقیرے (الیکٹروڈ) چھاپے۔ اس کے بعد ہر الیکٹروڈ کے اوپر ایک خامرہ (اینزائم) لگایا جس کا نام گلوکوز آکسیڈیز ہے اور اس کے بعد پوری سطح کو نیفیون پالیمر کی جھلی سے ڈھانپ دیا گیا اس طرح انقلابی کاغذی سینسر تیار ہوگیا۔

اب اس پر مریض کا تھوک لگایا گیا تو اس نے گلوکوز آکسیڈیز کے ساتھ ملتے ہی ایک برقی سگنل خارج کیا جو برقیروں تک گیا۔ اسے الگ سے کسی دستی آلے (مثلاً فون) پر بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔ اس سگنل کی شدت بتاتی ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کس درجے پر ہے۔

ماہرین کے مطابق تھوک میں موجود اسکاربک ایسڈ پالیمر سے تعامل کرتا ہے جس سے خون میں شکر کی مقدار پتا کی جاسکتی ہے تاہم خامرے جلدی ختم ہوجاتے ہیں لیکن اسے ایک پیکٹ میں بند کرکے ایک ماہ تک کارآمد رکھا جاسکتا ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ یہ سفر جاری رہے گا اور اسے جسمانی مائعات میں دیگر بیماریوں کی شناخت کے قابل بھی بنایا جاسکتا ہے۔

ریاض: سعودی عرب کے ماہرین نے انک جیٹ پرنٹر سے کاغذ پر چھاپے جانے والا سینسر تیار کیا ہے جو تھوک کی مدد سے خون کے اندر شکر کی مقدار بتاسکتا ہے۔ اس طرح بار بار انگلی میں نوک چبھو کر ذیابیطس کے اتار چڑھاؤ معلوم کرنے کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔

’ فلیکسیبل الیکٹرونکس‘ نامی جریدے میں شائع رپورٹ کے مطابق کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حیاتیاتی ماہر ساہیکا عنال، انجینئر خالد سلامہ اور مٹیریل کے ماہر دریا باران نے مشترکہ طور پر یہ اہم شے ایجاد کی ہے۔

سب سے پہلے انہوں نے اِنک جیٹ پرنٹر کی عام روشنائی (انک) میں ایسے پالیمر شامل کیے جن سے بجلی گزرسکتی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے چمکیلے کاغذ کی پٹیوں پر خردبینی برقیرے (الیکٹروڈ) چھاپے۔ اس کے بعد ہر الیکٹروڈ کے اوپر ایک خامرہ (اینزائم) لگایا جس کا نام گلوکوز آکسیڈیز ہے اور اس کے بعد پوری سطح کو نیفیون پالیمر کی جھلی سے ڈھانپ دیا گیا اس طرح انقلابی کاغذی سینسر تیار ہوگیا۔

اب اس پر مریض کا تھوک لگایا گیا تو اس نے گلوکوز آکسیڈیز کے ساتھ ملتے ہی ایک برقی سگنل خارج کیا جو برقیروں تک گیا۔ اسے الگ سے کسی دستی آلے (مثلاً فون) پر بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔ اس سگنل کی شدت بتاتی ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کس درجے پر ہے۔

ماہرین کے مطابق تھوک میں موجود اسکاربک ایسڈ پالیمر سے تعامل کرتا ہے جس سے خون میں شکر کی مقدار پتا کی جاسکتی ہے تاہم خامرے جلدی ختم ہوجاتے ہیں لیکن اسے ایک پیکٹ میں بند کرکے ایک ماہ تک کارآمد رکھا جاسکتا ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ یہ سفر جاری رہے گا اور اسے جسمانی مائعات میں دیگر بیماریوں کی شناخت کے قابل بھی بنایا جاسکتا ہے۔