151

انسانی تاریخ کا پہلا رنگین ایکسرے حاصل کرلیا گیا

نیوزی لینڈ کے سائنس دان نے نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی تاریخ میں پہلی بار رنگین ایکسرے حاصل کیے ہیں۔

ایٹمی تحقیق  کے سب سے بڑے ادارے سرن (سینٹر فار یورپین نیوکلیئر ریسرچ) میں تصویری ٹیکنالوجی میں تعاون کرنے والی طبیعاتی لیب نے انکشاف کیا ہے کہ نیوزی لینڈ کے سائنسدان نے انسانی تاریخ میں پہلی بار تھری ڈی ، رنگین ایکسرے بنائے ہیں تاہم اس کے لیے دستیاب جدید ترین مائیکروچپ سرن نے فراہم کی ہے۔

سائنس دان نے رنگین ایکسرے کے لیے ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے جو طبی تشخیص کے میدان میں بہتری کا وعدہ کرتی ہے جب کہ اس نئی ٹیکنالوجی کو نیوزی لینڈ کی کمپنی ’مارس بائیو امیجنگ‘ نے کمرشلائز کیا ہے جس میں انگلینڈ کی کینٹربری یونیورسٹی اور نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو نے معاونت فراہم کی ہے۔

سرن کی اس ٹیکنالوجی کو ’ڈبڈ میڈی پکس‘ نام دیا گیا ہے جو بالکل کیمرے کی طرح کام کرتی ہے ۔ ہوتا یوں ہے کہ جسم میں گوشت اور ہڈیوں کی مختلف موٹائی اور جسامت کی وجہ سے ایکسرے کہیں ہلکا اور کہیں گہرا دکھائی دیتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے تحت حاصل شدہ تصویر (ایکس رے) کا ڈیٹا سات رنگوں کے طیفی (اسپیکٹرل) ڈیٹا میں بدلا جاتا ہے۔

بعد ازاں ایک الگورتھم (سافٹ ویئر) اس ڈیٹا کی بنا پر رنگین تھری ڈی تصویر میں عضو یا ہڈی کا ایکسرے ظاہر کرتا ہے۔ تصویر پر یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے جسم کے اندر کا احوال کسی فنکار نے مجسمے کی صورت میں تیار کیا ہے۔

اگرچہ اس آلے میں روایتی سیاہ اور سفید ایکسرے ہی استعمال ہوتا ہے لیکن اسے رنگین بنانے کے لیے ذرات (پارٹیکلز) شناخت کرنے کی وہ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو دنیا کی سب سے بڑی ایٹم شکن مشین سرن میں استعمال ہوئی ہے۔ سرن ہی میں گزشتہ سال ہگز ذرہ دریافت ہوا تھا۔

رنگین ایکسرے کی نئی ٹیکنالوجی پہلے کے مقابلے میں بہتر اور صاف تصویر میہا کرسکتی ہے جس سے ڈاکٹر کو امراض کی تشخیص کرنے میں آسانی ہوگی اور وہ اس کی مدد سے بیماری کی بالکل درست تشخیص کرپائیں گے۔

کینٹربری یونیورسٹی کے ڈیولپر فل بٹلر کا ماننا ہے کہ اس مشین کا نیا تصویری آلہ ’ چھوٹے پکسلز اور درست ریزولیشن کی مدد سے وہ تصاویر بھی لے سکتا ہے جو دنیا کا کوئی اور تصویری آلہ حاصل نہیں کرسکتا۔

سینٹر فار یورپین نیوکلیئر ریسرچ کے مطابق یہ تصاویر نہ صرف ہڈی، پٹھوں، کارٹلیج  (مثلاً کان کی نرم ہڈی) کے درمیان فرق واضح کرتی ہیں بلکہ اس کے ذریعے  کینسر کی رسولی کی جگہ اور اس کی جسامت کا بھی درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔