واشنگٹن: ماہرین نے سمندر کے پانی سے قیمتی دھات یورینیئم نکالنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے جس کے بعد دنیا بھر میں یورینیئم کا مسلسل حصول ممکن ہوسکے گا جسے بجلی بنانے میں استعمال کرنا ممکن ہوگا۔
واشنگٹن میں واقع پیسفک نارتھ ویسٹ نیشنل لیبارٹری (پی این این ایل) نے ایل سی ڈبلیو سپر کریٹکل ٹیکنالوجیز کی مدد سے ایٹمی صنعتوں کے لیے ایک انقلابی طریقہ اختیار کیا ہے جس سے سمندری پانی سے 5 گرام پیلا (یلو) کیک نکالا گیا ہے جو یورینیم کا دوسرا نام بھی ہے۔ اس عمل میں دھاگے نما ریشے استعمال کیے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا پہلا عمل ہے جس میں عام کھارے پانی سے یورینیئم کشید کیا گیا ہے۔
سمندری پانی میں نمکیات، پوٹاشیئم، سلفیٹس، برومائیڈ، فلورائیڈ اور یورینیئم کی معمولی مقدار موجود ہوتی ہے۔ ایک لیٹر سمندری پانی میں تین مائیکرو گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود زمینی ذخائر سے 500 گنا زائد یورینیئم سمندروں میں بھرا ہوا ہے۔ اتنی مقدار میں یورینیئم 100,000 برس تک ایک گیگا واٹ کے ایک ہزار ایٹمی بجلی گھر چلانے کے لیےکافی ہے۔
سمندر سے یورینیئم کشید کرنے کے کئی طریقے وضع کیے گئے ہیں لیکن ان مہنگے اور مشکل طریقے کی وجہ سے اس میں خاطرخواہ کامیابی نہ مل سکی۔ تاہم اب پی این این ایل کے ماہرین اور ایل سی ڈبلیو کمپنی نے عام دھاگے سے یورینیئم جذب کرنے والی ایک چٹائی بنائی ہے لیکن اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ اتنا ضرور کہا گیا ہے کہ دھاگے کی چٹائی میں جمع یورینیئم نکال کر اس نظام کو بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔
دھاگوں کو ایک ٹینک میں رکھا جاتا ہے جس میں سمندری پانی ڈال کر گھمایا جاتا ہے۔ اس عمل میں یورینیئم کے ایٹم دھاگے ایٹمی بونڈ کے ذریعے جڑتے جاتے ہیں۔ اس طرح ماہرین نے 5 گرام یورینیئم حاصل کی ہے اور اس میں ایک مہینہ لگا ہے۔
پی این این ایل کے ماہرین کا خیال ہے کہ سمندروں میں یورینیئم کے بھرپور ذخائر ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے