398

گھروں کے قالین میں چھپے 44 انتہائی مضر صحت کیمیکل

لندن: پوری دنیا میں لاکھوں کروڑوں مربع فٹ قالین سالانہ بچھائے جاتے ہیں لیکن ان کی صفائی نہ کی جائے تو یہ بیماریوں کا گڑھ بن کر ہر ایک کی جان کے دشمن بن سکتے ہیں۔

ہیلدی بلڈنگ نیٹ ورک (ایچ بی این) نامی ادارے نے گھروں اور دفاتر کے قالینوں میں موجود 44 زہریلے اجزا اور کیمیائی مرکبات تلاش کیے ہیں جو انسانی صحت کے لیے بہت خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ کیمیکل اعصابی امراض سے لے کر کینسر تک کی وجہ بن سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں قالینوں میں طرح طرح کی مٹی اور دھول خصوصاً چھوٹے بچوں اور گھٹنوں چلنے والے شیر خوار کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوسکتی ہیں۔

چھوٹے بچے اس عمر میں تیزی سے بڑھ رہے ہوتے ہیں اور اپنے ماحول سے بہت کچھ حاصل کررہے ہوتے ہیں۔ قالینوں سے نکلنے والے ذرات اور دھول مٹی ان چھوٹے بچوں کی سانس میں جاکر کئی طرح کے امراض کی وجہ بن سکتی ہے۔ دوسری جانب مغربی ممالک میں سالانہ 4 ارب پونڈ وزنی قالین اور اس کے ٹکڑے کوڑا کرکٹ میں پھینکے جاتے ہیں جو بیماریوں کی پوٹلی ثابت ہورہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قالین کی پشت کو مضبوط بنانے، اس میں دبیز فوم لگانے اور مختلف گوند لگانے کے عمل میں یہ زہریلے کیمیکل پیدا ہورہے ہیں۔ قالین ساز کمپنیوں کی اکثریت صارفین کو اس سے آگاہ نہیں کرتی اور وہ اس خطرناک شے کو گھر لے آتے ہیں۔

خطرناک کیمیکلز کا مجموعہ

قالین اور اس سے بنی ٹائلوں کو لگانے کے لیے کئی کیمیکل بھی استعمال ہوتے ہیں جن میں 2008ء میں مکمل پابندی کا سامنا کرنے والے پولی اور پرفلورو الکائل (پی ایف اے ایس) اجزا سرِ فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ قالینوں کو گلنے اور حیاتی طور پر تباہ ہونے سے بچانے والے کئی کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں۔ ان میں ایک ٹرائکلوسین ہے جس پر پابندی عائد ہوچکی ہے اور فورمل ڈی ہائیڈ بھی شامل ہیں جو کینسر پیدا کرنے والا عنصر ہے۔

ایچ بی این نے کہا ہے کہ جو کمپنیاں گھر کے اندر داخل ہوکر جراثیم سے پاک رکھنے والے قالین فروخت کررہی ہیں وہ جھوٹ بولتی ہیں کیونکہ ایسے دعووں کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ اس کے علاوہ قالینوں کو آگ سے محفوظ رکھنے والے کئی کیمیکلز ملائے جاتے ہیں۔

دوسری جانب قالین میں پولی وینائل کلورائیڈ (پی وی سی) بھی موجود ہوتے ہیں جو ماحولیات کے لیے بہت خطرناک ہیں۔ پی وی سی انڈوکرائن ہارمون کے عمل کو شدید متاثر کرتے ہیں اور ان میں موجود آئسوسائنیٹس دمے اور سانس کی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔

دوسری جانب کارپٹ کے نیچے والے حصے کو مضبوط بنانے کے لیے فتھیلیٹس نامی کیمیکل لگائے جاتے ہیں جس سے وہ مضبوط اور لچک دار ہوجاتے ہیں اور بری خبر یہ ہے کہ یہ اجزا بھی کینسر کی وجہ بنتے ہیں یعنی کارسینوجن ہوتے ہیں۔

اسٹائرین ایک اور نامیاتی مرکب ہے جو قالینوں میں لگایا جاتا ہے اور یہ ربر کے کارخانوں میں مزدوروں کو خون کے سرطان میں مبتلا کررہا ہے اس کے علاوہ اسٹائرین دمے کی وجہ بھی بنتا ہے۔ قالینوں کو آگ سے محفوظ رکھنے والے اجزا میں ایک پولی یوریتھین بھی شامل ہے جو بچوں میں سیکھنے سے معذوری، کینسر اور تولیدی (ری پروڈکٹو) نظام کو متاثر کرتا ہے۔

ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ سو فیصد اونی قالین بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں گھر میں قدرتی لکڑی کی ٹائلیں بھی بچھائی جاسکتی ہیں۔

ایچ بی این نے تمام قالین ساز اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ قالینوں میں انتہائی مضر کیمیکل کا استعمال ختم کریں اور ماحول کو صاف رکھنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔