ٹیکساس: مورخہ 26 اگست کو ’’اسپیس ایکس‘‘ کے پروٹوٹائپ راکٹ ’’اسٹار ہاپر‘‘ (Starhopper) نے کامیاب آزمائشی پرواز مکمل کرلی۔ یہ راکٹ بالکل سیدھی اُڑان بھر سکتا ہے اور مطلوبہ مقام پر عموداً اُتر بھی سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، اسے بار بار استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ اردو داں طبقے کی دلچسپی کےلیے اسے ’’خلائی ٹڈا‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔
یہ تجرباتی راکٹ، خلائی سفر کا جنون رکھنے والے مشہور امریکی تاجر ایلون مسک کے ادارے ’’اسپیس ایکس‘‘ کے ماہرین نے تیار کیا ہے۔ اس ادارے کا مقصد خلائی سفر کو آسان اور کم خرچ بناتے ہوئے، مریخ پر انسانی بستیاں بسانا ہے۔ اسٹار ہاپر اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔
یہ تجرباتی راکٹ اپنی پہلی دو آزمائشوں میں زمین سے صرف چند انچ ہی بلند ہوسکا تھا جبکہ تیسری آزمائشی پرواز کے دوران یہ 20 میٹر بلندی تک پہنچا۔ البتہ ان تینوں آزمائشوں کے دوران، حفاظتی نقطہ نگاہ سے، اسٹار ہاپر کو باریک لیکن مضبوط تاروں سے باندھے رکھا گیا تھا۔ لیکن 26 اگست کو جنوبی ٹیکساس کے دور افتادہ مقام سے اپنی آخری اور بھرپور آزمائش میں اس کے ساتھ کوئی تار منسلک نہیں تھی جبکہ یہ نہ صرف 57 سیکنڈ تک فضا میں رہا بلکہ 150 میٹر (تقریباً 500 فٹ) کی بلندی تک بھی پہنچا، جس کے بعد یہ ایک اور مقام پر عموداً اتر گیا۔
اگرچہ یہ راکٹ اس سے بھی زیادہ بلندی تک جاسکتا تھا لیکن امریکی حکومت کی عائد کردہ پابندیوں کے تحت اسے صرف 150 میٹر بلندی تک ہی پرواز کرنے کی اجازت ملی۔ اسپیس ایکس کی جانب سے اس کامیاب پرواز کی ایک ویڈیو بھی یوٹیوب پر شیئر کرائی گئی:
اسٹار ہاپر میں ’’ریپٹر‘‘ نامی طاقتور راکٹ انجن نصب ہے جسے اگلی نسل کا راکٹ انجن بھی قرار دیا جارہا ہے۔ اسپیس ایکس کے سیاحتی خلائی جہاز ’’اسٹار شپ‘‘ میں ایسے ہی چھ راکٹ انجن نصب ہوں گے جو 100 مسافروں کو خلا کی سیر کروائیں گے اور پھر بحفاظت زمین پر واپس لے آئیں گے۔ اسپیس ایکس میں اسٹار شپ کے دو علیحدہ علیحدہ پروٹوٹائپس (ایم کے 1 اور ایم کے 2) پر کام جاری ہے جو خلا تک پہنچنے کے قابل ہوں گے۔ ایلون مسک کا کہنا ہے کہ اسٹار شپ کی تجارتی پروازیں 2021 تک شروع کردی جائیں گی۔
ابتدائی مرحلے میں تمام پروازیں زمین کے گرد مدار تک ہوں گی جنہیں بتدریج بڑھا کر چاند تک پہنچایا جائے گا؛ اور آخر میں مریخ تک انسان بردار پروازوں کا آغاز کیا جائے گا۔ حتمی طور پر یہ تو نہیں بتایا جاسکتا کہ انسان کے قدم، سیارہ مریخ تک کب پہنچیں گے لیکن اندازہ ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو 2050 تک یہ مرحلہ بھی سر ہوجائے گا۔
خلائی سفر کے ذیل میں اسپیس ایکس کا معاہدہ ’’سپر ہیوی‘‘ نامی ایک راکٹ ساز ادارے سے بھی ہوچکا ہے۔ یہ ادارہ ایک بہت بڑا خلائی جہاز بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں لگ بھگ 35 ریپٹر راکٹ انجن نصب کیے جائیں گے۔