کراچی: رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران پرانی گاڑیوں کی درآمد میں 684 فیصد کا غیرمعمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
جولائی 2023 تا دسمبر 2023کے دوران 16ہزار 500 سے زائد استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کی گئیں جبکہ مالی سال 2022 کے اسی عرصہ میں صرف دو ہزار 100گاڑیاں درآمد کی گئی تھیں۔
اعداد وشمار کے مطابق اس دورانیے میں اکانومی اور چھوٹی گاڑیوں کی درآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا اور اس کٹیگری میں شامل 9 ہزار 900 گاڑیاں درآمد کی گئیں، کمرشل، ایس یو ویز اور وینز کی مجموعی تعداد 6 ہزار 600 اور دیگر کٹیگریز کی طرح لگژری گاڑیوں کی درآمد میں بھی نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (پاپام) کے چیئرمین عبدالرحمان اعزاز نے بتایا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد میں ہونے والا یہ غیرمعمولی اضافہ وفاقی بجٹ 24-2023 میں 1800 سی سی تک کی گاڑیوں کی درآمد پر ریگولیٹری کے خاتمہ کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ درآمدی گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے کا مقصد پاکستان کے آٹوموٹیو سیکٹر فعال کرنا تھا، تاہم یہ اقدام مقامی آٹو انڈسٹری کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ درآمدی گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی چھوٹ کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد نے سنگین معاشی اثرات مرتب کیے ہیں، بالخصوص پرزہ جات بنانے والی مقامی صنعت کو 36 ارب روپے کا نقصان پہنچا اور پرزہ جات کی مقامی صنعت کو کاروبار بند کرنے کی جانب دھکیل دیا جا رہا ہے۔
مقامی صنعت کے نقصان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ایک جانب گاڑیوں کے درآمد کنندگان اور سی بی یو گاڑیاں درآمد کرنے والوں کو 100فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے کی سہولت دی گئی لیکن دوسری جانب اپنی بقا کی جنگ لڑنے والی مقامی صنعت کو کسی بھی قسم کا ریلیف فراہم نہیں کیا گیا، جسے موجودہ حالات میں طلب و رسد کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔
عبدالرحمن اعزاز نے کہا کہ مقامی گاڑیوں کی جگہ استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی سے خود حکومت کو بھی ریونیو کی مد میں بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ مقامی سطح پر تیار گاڑیوں کی فروخت میں کمی سے اس مد میں حاصل ہونے والی ڈیوٹی اور ٹیکسز میں بھی نمایاں کمی کا سامنا ہے۔