114

ٹریفک جام سے بچنے کا بہترین طریقہ چیونٹیوں سے سیکھیے!

پیرس: چیونٹیاں کہنے کو تو کیڑے مکوڑوں میں شمار ہوتی ہیں لیکن یہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بے مثال نظم و ضبط کا مظاہرہ بھی کرتی ہیں جو ان کی چھوٹی بڑی بستیوں (کالونیوں) سے لے کر ہجوم کی صورت میں ایک سے دوسری جگہ حرکت کرنے تک میں دکھائی دیتا ہے۔

کسی جگہ سے گزرنے والی چیونٹیوں کی تعداد چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، مگر نہ وہ ایک دوسرے کا راستہ روکتی ہیں اور نہ ہی ان کی آمد و رفت میں ٹریفک جام کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے۔

لیکن ایک معمولی سا کیڑا یہ غیرمعمولی کام کیسے کرلیتا ہے؟ یہ جاننے کےلیے فرانسسیسی اور امریکی سائنسدانوں نے کچھ دلچسپ تجربات کیے۔ انہوں نے ’’ارجنٹینا اینٹس‘‘ کہلانے والی ننھی منی چیونٹیوں کو مختلف تنگ اور چوڑے راستوں سے گزار کر ان کی حکمتِ عملی کا مشاہدہ کیا۔

اس تجربے کےلیے انہوں نے ارجنٹینا چیونٹیوں کی ایک کالونی سے کچھ فاصلے پر چیونٹیوں کے کھانے کی کچھ چیزیں رکھ دیں جبکہ اس جگہ تک صرف ایک چھوٹا سا پل عبور کرکے ہی پہنچا جاسکتا تھا۔ تجربے کی غرض سے 5 ملی میٹر، 10 ملی میٹر اور 20 ملی میٹر چوڑے مختلف پل بنائے گئے جن پر ایک وقت میں 400 سے لے کر 25600 چیونٹیوں کی گنجائش تھی۔ 170 مرتبہ دوہرائے گئے ان مشاہداتی تجربات میں طاقتور کیمرا استعمال کرتے ہوئے تمام مناظر فلمائے گئے۔

جب ان تمام مناظر کا باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جگہ تنگ ہو یا کشادہ، وہاں سے گزرنے والی چیونٹیوں کی تعداد کم ہو یا زیادہ، کسی بھی صورت میں ان کی آمد و رفت بڑے ہموار انداز سے جاری رہتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر کسی سڑک پر گنجائش کے اعتبار سے صرف 40 فیصد جگہ پر بھی گاڑیاں آجائیں تو ٹریفک آہستہ ہونے لگتا ہے اور اس سے زیادہ بڑھنے پر بتدریج ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔

ارجنٹینا چیونٹیوں میں معاملہ اس کے برعکس رہا۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں ٹریفک جام پر کنٹرول کرنے میں خصوصی مہارت حاصل ہے کیونکہ گزرگاہ کے 80 فیصد حصے پر بھی چیونٹیوں کا ہجوم جمع ہونے کے باوجود، اس پر چیونٹیوں کے گزرنے کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی۔

معلوم ہوا کہ جب ان کی گزرگاہ قدرے کم مصروف ہو تو چیونٹیاں اپنی رفتار بڑھانے لگتی ہیں، یہاں تک کہ پوری گزرگاہ پر چیونٹیوں کا ایک ہجوم حرکت کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح کسی راستے سے گزرنے والی چیونٹیوں کا ہجوم بہت زیادہ ہونے کی صورت میں مزید چیونٹیاں کچھ ٹھہر کر اس راستے پر آتی ہیں تاکہ آمد و رفت متاثر نہ ہو۔

دوسری جانب، ہجوم کی حالت میں اس راستے سے گزرنے والی چیونٹیاں بھی اپنی رفتار کچھ آہستہ کرلیتی ہیں تاکہ وہ آپس میں ٹکرانے سے اور ایک دوسرے کا وقت برباد کرنے سے محفوظ رہیں۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’ای لائف‘‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ساری حکمتِ عملی کے ذریعے چیونٹیاں صرف ایک مقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں: اپنی بستی کی بقاء۔

نتیجہ: انسانی معاشروں میں سخت قوانین ہونے کے باوجود اس لیے ٹریفک جام ہوتا ہے کیونکہ ہر شخص کو صرف اپنی فکر ہوتی ہے اور وہ سب سے پہلے اپنی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اگر انسانوں میں بھی چیونٹیوں جیسا اجتماعی شعور آجائے تو نہ صرف ٹریفک جام، بلکہ بہت سے سنگین معاشرتی مسائل کبھی پیدا ہی نہ ہوں۔