75

حکومت کا اسٹیٹ بینک سے قرض نہ لینے کا فیصلہ

حکومت نے اعلان کیا ہے کہ قرض دگنا بڑھ جانے کی وجہ سے آئندہ مالی سال کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے قرض نہیں لیا جائے گا۔

رواں مالی سال کے دوران 14 جون تک حکومت نے مرکزی بینک نے 27 کھرب روپے کے قرضے لیے لیکن گذشتہ برس یہ قرضے صرف 14 کھرب 30 ارب روپے تک لیے گئے تھے۔

رواں مالی سال کے دوران حکومت کی ٹیکس وصولی میں واضح کمی کی وجہ سے حکومت، مرکزی بینک سے بڑی تعداد میں قرضے لینے پر مجبور ہوئی تاہم آئندہ برس قرضے نہ لینے کا فیصلہ موجود صورتحال کا عکاس نہیں۔

حکومت نے مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں آمدن کو 14 کھرب روپے تک بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے جس میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ اور سبسڈیز میں کمی شامل ہے۔

دریں اثنا حکومت کی مقررہ وقت پر قرض کی ادائیگی 8 سو 59 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جو گذشتہ برس کے 2 سو 47 ارب روپے کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہے۔

مالیاتی سیکٹر میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ مرکزی بینک کی غیر حاضری کے بعد حکومت اپنی مالیاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے کمرشل بینکوں کو دیکھے گا۔

کمرشل بینکوں کی جانب سے حکومت کے لیے فنڈ کے بڑے پیمانے پر اجرا سے پرائیویٹ سیکٹر متاثر ہوگا جس کا مجموعی طور پر اثر معاشی سرگرمی پر پڑے گا۔

تاہم آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے مالیاتی پروگرام کی منظوری کے بعد ممکنہ طور پر پاکستان کے لیے دیگر دوطرفہ ذرائع سے بھی پاکستان کے لیے فنڈ کا اجرا شروع ہوجائے گا جس کی مدد سے حکومت کا اسٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ دیگر کمرشل بینکوں پر بھی انحصار کم ہوجائے گا۔